پوری دنیا سانس روکے کھڑی تھی کہ امریکی انتخابات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے سوشل میڈیا پر مزاج نگاروں نے ایک دن پہلے سرخی لگا دی کہ اگلے 24 گھنٹے میںپتہ چل جائے گا لڑکا ہوتا ہے یا لڑکی دونوں میں سے کچھ تو ہونا ہی تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہاں لڑکا ہو گیا اور لڑکی نہ ہو سکی۔
ویسے تو 2024ءکے امریکی انتخابات پر لکھنے کے لیے بے پناہ مواد موجود ہے لیکن کچھ چیزیں بڑی اہم ہیں جس میں سب سے پہلا نمبر امریکی پول سروے کرنے والے اداروں کا ہے جو اس طرح کا تاثر دے رہے تھے کہ لگتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست ہو گی اور دنیا میں کملا ہیرس پہلی امریکی صدر بن کر تاریخ رقم کرے گی بہت سے موقعوں پر دونوں امیدواروں کی مقبولیت کے عوامی اعداد و شمار میں ایک آدھ فیصد کا فرق دکھایا جاتا رہا مگر جب رزلٹ آیا تو سارے کے سارے سروے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے تین مرتبہ صدارتی الیکشن لڑا ان کے مقابلے میں عورت کھڑی ہوئی تو وہ جیت گئے مگر مرد امیدوار کھڑا کیا گیا تو وہ ہار گئے۔ 2016ءمیں ان کے مقابل ہیلری کلنٹن تھیں جو بہت زیادہ مضبوط تھی مگر ہار گئی۔ 2024ءمیں کملا
سامنے آئیں مگر ان کی قسمت بھی ہیلری سے مختلف نہ تھی۔ 2020ءمیں جب ٹرمپ کا مقابلہ بائیڈن سے تھا تو انہیں شکست ہوئی ۔
بائیڈن نے اندر سے حالات کی نبض دیکھ لی تھی کہ عوام ان سے ناراض ہیں اس کی پہلی وجہ تو وہاں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے افراط زر میں اضافہ کی وجہ سے امریکی عوام بہت پریشان تھے لیکن اس سے بھی بڑی اور سنگین وجہ 7 اکتوبر 2023ءسے شروع ہونے والی اسرائیل کی غزہ پر یلغار تھی جس میں 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ فلسطینی لقمہ¿ اجل بن گئے۔ بائیڈن کے لیے مشکل فیصلہ تھا مگر انہوںنے ضمیر کے بوجھ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھل کر اسرائیلی حمایت کی۔
ان کی اس پالیسی سے امریکا میں جتنے امریکی عرب تھے انہوں نے بائیڈن کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ گورے امریکیوں کی بہت بڑی تعداد انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر ان کی مخالف ہو گئی۔ اس الیکشن میں ایک نیا فیکٹر سامنے آیا ہے اور وہ ہے امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کا ووٹ بینک۔ یہ ووٹ بینک ہمیشہ تنکا تنکا بکھرا ہوا ہے جو کبھی آپس میں متفق نہیں ہوتے وہ مذہب اور اپنی نسلی یا علاقائی پس منظر سے اوپر اٹھ کر امریکی ایشوز کی بنیاد پر ہمیشہ ووٹ دیتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ چونکہ بائیڈن کی اندھا دہند اسرائیلی حمایت کی وجہ سے پانی سر سے گزر چکا تھا لہٰذا انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بائیڈن اور ٹرمپ میں پالیسی فرق نہیں ہے پھر بھی انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا کیونکہ وہ بائیڈن کے مقابلے میں کم خطرناک تھا۔
کملا ہیرس کے لیے موقع تھا کہ وہ بائیڈن کی گزشتہ ایک سال میں اسرائیل کو دی گئی خطیر فوجی امداد جس کی مالیت 30 ارب ڈالر ہے اپنے آپ کو اس سے لا تعلق کر لیتی لیکن اس نے ہر تقریر میں بائیڈن کی تائید جاری رکھی یہ ان کی ناتجربہ کاری تھی جس کی انہیں قیمت چکانا پڑی۔ اگر وہ بائیڈن سے فاصلہ رکھتی تو شاید رزلٹ کچھ اور ہوتا۔ بہت سے ووٹرز نے ڈونلڈ ٹرمپ سے محبت کی بجائے بائیڈن سے نفرت کی بنا پر ان کے مخالف کوووٹ دیا۔ ماضی میں امریکی سیاسی پارٹیاں ایک مضبوط مذہبی عقیدے کی طرح سوچتی تھیں کہ اگر وہ یہودیوں کے مفاد کے خلاف جائیں گی تو انہیں انتخابات میں شکست ہو گی۔ اب نیا ٹرینڈ یہ ہے کہ امریکہ میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اگر وہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ دیں تو الیکشن نتیجہ بدل سکتا ہے۔ ثابت ہوا کہ امریکی عوام امریکہ سے باہر ہونے والے واقعات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔
امریکی عربوں کے اندر ایک گہرا تاثر پایا جاتا ہے کہ غزہ اور لبنان پر گرنے والا ہر میزائل اور ہر ڈرون حملہ امریکی ڈیموکریٹس حکومت کا بھیجا ہوا ہے۔
تبصرے بند ہیں.