امریکہ میں صدارتی الیکشن انجام پذیر ہوئے، کچھ نئے ریکارڈ قائم ہوئے اور کچھ ریکارڈ قائم ہونے سے رہ گئے۔ کمیلا ہیرس کا صدارتی الیکشن لڑنا، امریکی روایات کی تبدیلی ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ میں سیاہ فام یا رنگدار عورت کا الیکشن لڑنا امریکی روایات سے انحراف ہے۔ اس سے پہلے ہیلری کلنٹن میدان میں اتری تھیں لیکن وہ سفید فام تھیں۔ کمیلا ہیرس کا امریکی صدارتی الیکشن، امریکی روایت شکنی تھا اور اگر وہ جیت جاتیں تو ایک نیا ریکارڈ قائم ہو جاتا۔
دوسری طرف امریکہ کی دو صدیوں سے زائد عرصے پر محیط تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک امریکی صدر جو دوسری مرتبہ الیکشن ہار چکا ہو وہ تیسری مرتبہ الیکشن لڑے اور پھر جیت بھی جائے۔ ٹرمپ ایک الیکشن ہارنے کے بعد تیسری مرتبہ الیکشن لڑے اور جیت کر دوسری مرتبہ صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ نئی تاریخ رقم ہو چکی ہے۔ ٹرمپ نے الیکٹورل انتخاب میں بھی مثالی کامیابی حاصل کی ہے۔ ٹرمپ نے 292الیکٹورل ووٹ حاصل کئے جبکہ کمیلا ہیرس نے 226ووٹ لئے۔ اس طرح سینیٹ میں بھی ٹرمپ پارٹی کی اکثریت ہو گئی۔ دوسری طرف پاپولر ووٹ حاصل کرنے میں بھی ٹرمپ نے ریکارڈ قائم کیا۔ انہیں کمیلا ہیرس سے 50لاکھ زیادہ ووٹ ملے۔ اب ایوان نمائندگان اور سینیٹ، دونوں ایوانوں میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہو گئی ہے۔ ٹرمپ کو اپوزیشن کی طرف سے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، ٹرمپ جو چاہیں گے کر گزریں گے اور انہیں بہت کچھ کرنے کا مینڈیٹ بھی حاصل ہے۔
ہمارے ہاں پی ٹی آئی کے لوگوں کے علاوہ دیگر ماہرین و تجزیہ کاروں اور تجزیہ نگاروں کی یہ رائے تھی کہ ٹرمپ کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ناپسندیدہ ہے انہیں للکارنے والا ہے اس لئے وہ شاید فتح یاب نہ ہو سکے پھر ٹرمپ نے جس طرح سفید فام امریکیوں کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کی اور اپنے مذہبی رجحانات کو بنیاد بنا کر مذہبی لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کاوشیں کیں کیونکہ ایسی کاوشیں امریکی آئین کے بنیادی اصولوں کے منافی تھیں اس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ امریکی مقتدرہ ٹرمپ کو دوبارہ وائٹ ہاﺅس تک نہیں پہنچنے دے گی۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کا پہلا دور حکمرانی امریکی عوام کے لئے آسانیاں لے کر نہیں آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری مرتبہ کے لئے امریکی عوام نے انہیں اپنے اعتماد کا ووٹ نہیں دیا تھا۔
ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کی کارکردگی، ٹرمپ سے بھی بری رہی۔ 2020-24ءکے دوران امریکی معیشت بھی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ بے روزگاری پھیلی۔ روس، یوکرائن جنگ بھی ہوئی۔ جو بائیڈن کی بری کارکردگی نے ٹرمپ دور کی بری یادیں بھلا دیں۔ اس مرتبہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم ایک نئے جذبے اور واضح اہداف کے حصول کے ساتھ چلائی۔ لوگوں کو تبدیلی کے روشن اہداف کی طرف لے جانے کا وعدہ کیا۔ کھل کھلا کر مقتدرہ کو للکارا۔ مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا۔ یہودی تو پہلے ہی ساتھ تھے۔ تارکین وطن جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں قیام پذیر ہیں اور جو غیر قانونی طریقوں سے یہاں آنا چاہتے ہیں، سب کو للکارا اور ان کے خلاف اعلان جنگ کیا گویا وہ امریکی سلطان راہی کے طور پر سامنے آئے۔
اس سوال کا جواب ابھی یہیں چھوڑتے ہیں۔ یہی سوال پاکستان کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں پی ٹی آئی والے ٹرمپ کی فتح کے لئے پرامید تھے اور وہ اس فتح سے اپنے خان کی رہائی اور مشکلات سے گلو خلاصی جوڑے بیٹھے تھے۔ تجزیہ نگار اس سوال کے ممکنہ جوابات تلاش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نئی امریکی انتظامیہ خان کی رہائش کیلئے حکومت پاکستان پر دباﺅ ڈالے گی؟ اور پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ حکومت پاکستان کا اس حوالے سے رویہ کیا ہوگا؟۔
امریکی انتظامیہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے کے حوالے سے بڑی محتاط واقع ہوئی ہے۔ عام طور پر حقوق انسانی کی پامالی کی آڑ میں امریکی انتظامیہ اس طرح کی مداخلت کرتی رہی ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم اور ان ممالک کے حوالے سے ہوتے ہیں جہاں مکمل طور پر جبر و استبداد کی حکمرانی ہوتی ہے۔ اگر سب برائیاں کرنے کے باوجود حکومت/ حکمران امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچا رہا ہو تو امریکی انتظامیہ عموماً مداخلت نہیں کرتی ہے۔ کبھی کبھار امریکہ میں موجود مخصوص لابیوں کے زیر اثر امریکی انتظامیہ مداخلت کرتی ہے۔ سکھ لابی کے دباﺅ کے تحت کلنٹن انتظامیہ نے ہندوستانی حکومت کو سکھوں کیخلاف جاری پالیسیاں ترک کرنے کا کہا تھا۔ ایسی ہی پاکستانیوں کی لابی کے زیر اثر 60/62کانگریس ممبران نے اپنے صدر جو بائیڈن کو عمران خان کی رہائی کیلئے مداخلت کرنے کا خط لکھا تھا۔ اس سے پہلے جنرل ضیاءالحق کو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی روکنے کے لئے امریکی حکومت نے دباﺅ ڈالا تھا حکومت نے اس دباﺅ کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ نوازشریف کو جلاوطن ہونے کی اجازت ملی تھی۔ ٹرمپ کا یہودی نواز ہونا اہم ہے۔ عمران خان بھی کیونکہ یہودی نواز ہیں گولڈ سمتھ جو کہ رتھ چائلڈ میں سے ہیں، پکے یہودی اور اسرائیل کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ گریٹر اسرائیل کی تعمیر، ہیکل سلیمانی کی تیسری مرتبہ تعمیر کے داعی اور موعید بھی ہیں۔ عمران خان کے سابقہ سسرالی ہیں۔ عمران خان زک گولڈ سمتھ کی بمقابلہ صادق خان حمایت کرکے اس بات کا عملی مظاہرہ بھی کر چکے ہیں کہ وہ یہودی نواز ہیں۔ اس لئے عمران خان کے حمایتوں کا ٹرمپ کی حمایت کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ نے عمران خان دور حکمرانی میں سردمہری کا مظاہرہ کیا۔ عمران خان کو لفٹ نہیں کرائی۔ ان کا ٹیلیفون تک سننا گوارا نہیں کیا۔ عمران خان اس بے عزتی کا برملا اظہار بھی کرتے رہے۔ اس لئے پی ٹی آئی لامحالہ ٹرمپ کو ہی اب اپنا ملجا و ماوہ سمجھے گی۔ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ عمران خان کے حوالے سے کچھ کہے یا کرے اور اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ ہم مثبت ردعمل کا مظاہرہ کریں کیونکہ عمران خان بہرحال سیاسی طور پر ایک حقیقت بھی ہیں اور بہت بڑی رکاوٹ بھی اور ہم اس رکاوٹ کو ختم کرنا بھی چاہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہے؟۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.