واشنگٹن: امریکہ میں جاری صدارتی انتخابات میں مسلم ووٹرز کا کردار انتہائی اہم ہو سکتا ہے، اور ان کے ووٹ کا اثر نتائج پر واضح طور پر نظر آ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلم کمیونٹی اس بار اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر دونوں امیدواروں کے مؤقف کو دیکھ کر ووٹ دینے کا فیصلہ کر رہی ہے، جو نتائج میں اہم تبدیلی لا سکتا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی کملا ہیریس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ دونوں مسلم ووٹرز کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ میں بڑی تعداد میں عرب نژاد امریکی موجود ہیں، جو کبھی ڈیموکریٹس اور کبھی ریپبلکنز کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔ اس بار اسرائیل کی جارحیت اور فلسطین، لبنان، اور غزہ کے حالات کی وجہ سے مسلم ووٹرز میں ایک منفرد نوعیت کی تقسیم نظر آ رہی ہے۔
مسلم کمیونٹی میں بہت سے افراد اسرائیل کے مسئلے پر دونوں امیدواروں کی جانب سے سخت مؤقف نہ اپنانے پر مایوس ہیں۔ کئی مسلم تنظیمیں یہ عندیہ دے چکی ہیں کہ اگر غزہ پر اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا تو وہ ووٹ ڈالنے سے گریز کریں گے۔
ڈیئربورن، جہاں بڑی تعداد میں عرب امریکی آباد ہیں، ان انتخابات میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ پچھلے انتخابات میں جو بائیڈن کو یہاں سے 80 فیصد سے زائد ووٹ ملے تھے، جس سے انہیں مشیگن میں کامیابی ملی۔ لیکن اس بار کملا ہیریس کو یہاں کی مسلم کمیونٹی سے توقعات کے مطابق حمایت ملتی نظر نہیں آ رہی۔
ماہرین کے مطابق، اگر پولنگ ڈے تک عرب نژاد ووٹرز کی شرکت میں کمی آئی تو یہ کملا ہیریس کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے، اور اس سے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلم ووٹرز دو جماعتوں میں سے کم تعصب رکھنے والے امیدوار کا انتخاب کریں گے یا انتخابات سے دور رہنے کا فیصلہ کریں گے۔
تبصرے بند ہیں.