ہم قوم کہلا سکتے ہیں؟

66

جس دن ایس سی او سربراہی کانفرنس کا اجلاس ہونا تھا عین اسی دن اسی موقع پہ لاہور میں ایک نجی کالج کی ایک بچی کی آبروریزی کے جھوٹے واقعہ کو بنیاد بنا کر پوری تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہنگامہ آرائی کرا دی گئی۔ اس فعل سے جہاں ناصرف ملک کی بدنامی ہوئی وہیں ملک دشمن عناصر ایک دفعہ کھل کر سامنے آ گئے۔ جہاں طالب علموں کے ذہنوں کی نا پختگی سامنے آئی وہیں ان نا پختہ ذہنوں کو اپنی سیاسی پسند نا پسند کی بھینٹ چڑھا کر، انہیں ورغلا کر سڑکوں پہ لانے والے اساتذہ کا گھناؤنا کردار بھی سامنے آ گیا۔ لیکن اس سارے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی میں نقصان کس کا ہوا؟ نیم خواندہ شخص بھی جب اس معاملے پہ ذہن لڑائے گا تو اسے پتہ چل جائیگا کہ اس سارے واقعے میں اگر نقصان ہوا تو نجی ادارون کے مالکان کا، اس کے بعد توڑ پھوڑ میں ملوث طالب علموں کا اور آخر میں سب سے زیادہ نقصان معاشرے کا ہوا کہ جس میں نوجوان بچیوں کے لیے تعلیمی درسگاہوں کو غیر محفوظ جگہ بنا دیا گیا۔
اس سارے واقعے میں چند بڑی عجیب باتیں دیکھنے کو ملی کہ احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ کرتے نوجوان طالب علموں سے جس نے بھی پوچھا کہ بھئی آپ لوگ زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی کو جانتے ہیں۔ جواب نفی۔ کیا آپ اسے ملے ہیں، جواب نفی۔کیا آپ نے واقعہ کو کنفرم کیا ہے، جواب نفی۔ کیا آپ نے اس سلسلے کی کوئی وڈیو دیکھی، جواب نفی تو پھر یہ توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی کیوں؟ جواب ندارد۔ ثابت ہوا کہ ناپختہ ذہنوں کو کسی بھی وقت کسی بھی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ جو ملک اور قوم کے لیے انتہائی خطرناک چیز ہے۔ انکوائری ہو چکی، ثابت ہو چکا کہ نا تو ایسا کوئی واقعہ پیش آیا اور نا ہی تعلیمی درسگاہ والوں نے کچھ چھپایا۔ بلکہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ایک خاص گروہ جو کہ ایک سیاسی جماعت کا حصہ ہے، اس نے یہ افواہ پھیلائی اور پھر اسی گروہ نے بڑے منظم طریقے سے مختلف پرانی تصاویر لگا لگا کر سوشل میڈیا پہ اپنے ونگ کو متحرک کیا اور اس کا نتیجہ پوری قوم نے دیکھا۔ بارہا کہا اور لکھا کہ سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک جیسی اپلیکیشن کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
اب آتے ہیں اپنے سوال کی طرف کہ کیا ہم مہذب قوم تو دور کی بات صرف قوم ہی کہلا سکتے ہیں؟ تو حقیقت یہی ہے کہ ہم ایک بے لگام، بے ہنگم اور انتشار پسند گروہ کا روپ دھار رہے ہیں۔ طالبعلم جو درسگاہوں سے تعلیم حاصل کر رہے ہوں، جنہیں با شعور ہونا چاہئے، جب وہ اپنی ہی درسگاہوں کی توڑ پھوڑ شروع کر دیں، انہیں آگ لگانا شروع کر دیں اور ایک فرضی کہانی کی آڑ میں قانون توڑتے ہوئے بلکہ روندتے ہوئے اپنا ہی مستقبل داؤ پہ لگانے پہ آ جائیں تو سمجھیں کہ ہم ہجوم ہیں قوم نہیں۔ یہیں میرا ان نجی اداروں کے مالکان سے بھی ایک سوال ہے کہ جب سالہا سال سے آپ کے ادارے ایک خاص سیاسی جماعت جو کہ ملک دشمنی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہو، اس کے ملک دشمن، قوم دشمن نظریات کی بنیاد رکھنے اور ایک شخص کی اندھی محبت میں مبتلا ہونے کی نرسریاں بن رہی ہوں تو کیا آپ کا فرض نہیں کہ آپ اپنے اداروں کو کاروبار کے بجائے تعلیمی درسگاہ بنانے پہ بھی توجہ دیں اور ایسے خواتین و حضرات جو اساتذہ کے روپ میں سیاسی کارکن بن کر ایسے نظریات پھیلا رہے ہوں، کچے ذہنوں میں زہر گھول رہے ہوں تو انہیں سختی سے روکیں یا نکال باہر کریں۔ لیکن یہاں بھی حقیقت تلخ ہے کہ مالکان کی اس طرف کبھی توجہ نہیں رہی کیونکہ ان کا کاروبار چل رہا تھا۔ لیکن اب یہ عفریت پل بڑھ چکی ہے۔ جو آج انہی کو نقصان پہنچا اور کھا رہی ہے۔
آخر میں والدین سے بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ خدارا آپ اپنی اولاد کی طرف کچھ توجہ کریں۔ کیونکہ جب قانون اپنا رستہ بنائے گا تو پھر یہ فسادی پابند سلاسل ہوں گے۔ نا تعلیمی کیرئر رہے گا اور نا سیاسی وابستگیاں کام آئینگی۔ مستقبل تباہ ہو جائینگے اور یہی اولاد طالبعلم سے ملزم بن کر عدالتی کٹہرے میں کھڑی ہو گی۔ اپنی اولاد کے سوشل میڈیا کے استعمال کو مانیٹر کریں تاکہ آپ کو پتہ ہو کہ وہ کسی تخریبی سرگرمی میں تو شامل نہیں۔ خیر جو ہو رہا ہے اب دو ہی راستے ہیں۔ یا تو قوم کو اس بے ہنگم گروہ اور اس کے ہینڈلرز کے حوالے کر دیا جائے اور مشتعل ہجوم کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا جائے یا پھر قانون اپنا رستہ لے اور ان سب کو اپنے کیے کی سزا بھگتنا پڑے۔ جو دوسروں کے لیے بھی نشان عبرت ہو۔ غیرت مند قومیں اپنی عزت و حمیت کی نگہبان بنتی ہیں ناکہ لوگوں کی بے قصور بیٹیوں کی تصاویر لگا کر آگ پہ جلتی کا کام کرتی ہیں اور ان کے مستقبل سے کھیلتی ہیں۔ کاش کہ طالبعلم یہ سوچیں اور ہجوم بننے کے بجائے ایک قوم بنیں۔

تبصرے بند ہیں.