روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کی ضمانت

56

آئین کی حکمرانی رہے گی تو اس ملک کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر سوال یہ ہے کہ آئین کی حکمرانی کا نفاذ کون کرے گا۔ اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر سیاست دان خود آئین اور قانون کی پابندی کریں تو ملک میں تمام ادارے بھی اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ملک میں جب بھی جمہوریت ڈی ریل ہوئی یا کوئی غیر جمہوری عمل وقوع پذیر ہوا اس کے ذمہ دار سیاست دان اور جمہوری قوتیں ہی ہیں۔سیاست دان جمہوریت کا نام لے کر اقتدار میں آتے ہیں اور خود ہی جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں جمہوریت پنپ نہ سکی۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جن ممالک میں جمہوریت ایک تسلسل کے ساتھ چلتی رہی وہاں نہ صرف جمہوری روایات مستحکم ہوئیں بلکہ وہ ترقی کی دوڑ میں بھی تیزی سے آگے نکل رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال ہمسایہ ملک بھارت کی ہے جہاں آج تک کسی ادارے پر انگلی نہیں اٹھی کہ اس کی ملی بھگت کے ساتھ وہاں نتائج تبدیل کئے گئے ہیں اور نہ ہی کبھی ہارنے والے سیاستدانوں نے دھاندلی کا شور و غلغلہ کیا بلکہ ہارنے والے خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی ہار تسلیم کر کے جمہوریت کے استحکام کے لئے اپنا مثبت کردارا دا کرتے رہے، جب کہ ہمارے ہاں منعقد ہونے والے تقریباً تمام انتخابات پر دھاندلی زدہ ہونے کے الزامات لگے۔ حالیہ 2024ء کے انتخابات میں دھاندلی کے جیسے الزامات سامنے آئے انہوں نے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر حکمران حقیقی معنوں میں یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوری تسلسل چلتا رہے اور مارشل لاء کی نوبت نہ آئے تو انہیں کسی غیر آئینی عمل کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔
میدانِ سیاست میں رات دن طرح طرح کے گل کھلانے والی پارٹیوں کی طرف سے ہر روز نت نئے دعوؤں اور وعدوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے دعوے اور وعدے نان ایشوز کے ایک ایسے دائرے کے اندر ہی گھوم گھوم کر غائب ہو جاتے ہیں جن کا حقیقی معاشی اور معاشرتی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ وہ بے شک نہیں جیتے لیکن پھر بھی چاہتے ہیں کسی طرح پانچ سال پورے کر لیں۔ ایک من گھڑت سی بات کرتے رہتے ہیں کہ سسٹم کو بچانا ہے بھلا ان سے کوئی پوچھے کبھی بے ایمانی اور جھوٹ سے بچایا گیا سسٹم پائیدار ہو سکتا ہے، دوسرا یہ کہ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ آخر کون سے سسٹم کو بچانا ہے اور کیوں بچانا ہے؟ کیا اس سسٹم کو بچانا ہے جس میں انتخابات کے ڈھونگ سے عنانِ اقتدار حاصل کیا جاتا ہے۔ دھاندلی زدہ کرپشن پر مبنی سسٹم کو بچانے کی کوشش کرنے والے در اصل عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ یہ جس سسٹم کے تحت برسرِ اقتدار آئے ہیں، آتے ہیں، اور آئندہ بھی آئیں گے، اس سسٹم میں عوام کی فلاح کے کسی تصور کا دور دور تک کوئی گزر نہیں ہے۔ان لوگوں کی سیاست کا محور صرف یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسندِ اقتدار تک رسائی حاصل کر لی جائے۔ ان کے پروگراموں کو دیکھ لیجئے خالی خولی اور بے معنی لفاظی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ ان کا سارا زور صرف اسی پر رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے کیسے قرض حاصل کیا جائے اور اس سے اپنا ڈنگ ٹپا کر اقتدار کے مزے لوٹ لئے جائیں۔ کیا یہ لوگ اپنے مفادات سے دستبردار ہو جائیں گے؟ کیا یہ کسی ایسے نظام کے قیام پر راضی ہو جائیں گے جس کی بنیاد معاشی اور سماجی انصاف پر ہو؟ سیاست دان بساطِ سیاست پر جو کھیل کھیل رہے ہیں اس کا فی الحقیقت عوامی مسائل و مصائب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ دھاندلی کے الزامات کی بھرمار ہے تو اس وقت پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ جن جن حلقوں میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کی شکایات ہیں ان کا آڈٹ کر دیا جائے اور یہ آڈٹ صاف شفاف ہونا چاہئے۔ ایسا کرنے سے جمہوری امیج بہتر ہو گا اور دھاندلی کی شکایت کرنے والے مطمئن ہو جائیں گے۔ لیکن یہ کسی صورت ایسا نہیں کریں گے جب کہ یہی روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کی ضمانت ہے۔
میاں نواز شریف کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ انہیں کتابی غور و فکر کا شغف نہیں اس لئے وہ اپنے ایڈوائزرز اور قربِ سلطانی کے ماہرین کے زیرِ اثر رہتے ہیں۔ کمیونسٹ ہو، سوشلسٹ ہو، لادین ہو، دائیں بازو کا ہو یا دینی و مذہبی شخصیت ہو جب تک اس کے نظریات کی بنیاد گہرے مطالعے پر استوار نہ ہو وہ پھسلتا ہی رہتا ہے اور دوسروں کے زیرِ اثر رہتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کامیاب لیڈر شپ کے لئے دانش، حکمت اور توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ بحران کے دوران لیڈر کو تنی ہوئی رسی پر مضبوطی، توازن اور سب سے بڑھ کر استقامت سے چلنا پڑتا ہے۔ جو قائدین اپنے نظریات اور اعلیٰ قومی مقاصد کے لئے قربانی دیتے ہیں وہ تاریخ میں بھی اور سیاست میں بھی زندہ رہتے ہیں۔ سمجھوتے کرنے والے اور مقتدر قوتوں کی غلامی کرنے والے وقت کے دھارے میں خس و خاشاک کی طرح کی مانند بہہ جاتے ہیں۔ اصولوں پر ڈٹے رہنے کے ساتھ سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں، لچک بھی دکھانا پڑتی ہے لیکن اصول کا دامن تھامے رکھنا پڑتا ہے۔ انہوں نے ضیاء دور سے لے کر 2018ء کے بعد بیرونِ ملک علاج کے لئے جانے تک کئی بار سمجھوتے کئے یہی وجہ ہے کہ اس بار انہیں عوام نے مسترد کیا اس سے انہیں سبق حاصل کرنا چاہئے تھا اور جمہوری نظام اور ملکی مفاد میں قربانی دیتے، انتخابات میں کامیابی کے لئے کسی بھی سہارے کو نہ مانتے اصولوں پر ڈٹ جاتے تو ایک وقت آ جاتا کہ عوام ان کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کر لیتے۔اصول لیڈر کو بڑا لیڈر بناتے ہیںاور ووٹوں کی بارش لاتے ہیں، لیکن میاں نوازشریف کا سارا زور روٹھی ہوئی رت کو منانے میں ہے جب کہ فی الحال کوئی امید کی کرن، کوئی روشنی کا نقطہ کہیں نظر نہیں آرہا۔ اصولی جنگ اور اقتدار کی جنگ میں فرق ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھیں۔

تبصرے بند ہیں.