قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا

30

شنگھائی تعاون تنظیم کا پاکستان میں منعقد ہونے والا اجلاس ایسے حالات میں ہوا جب پاکستان پر دہشت گردی کے بادل منڈلا رہے تھے۔ اس اہم اجلاس سے چند روز قبل چینی انجینئرز کو نشانہ بنایا گیا جو دشمنان پاکستان کی طرف سے ان کوششوں کا حصہ تھا کہ پاکستان کو غیر ملکیوں کے لئے غیر محفوظ ثابت کیا جائے۔ سکیورٹی ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فول پروف سکیورٹی انتظامات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جو انہوں نے بخوبی نبھائی، کانفرنس کیلئے کئے گئے انتظامات تسلی بخش تھے۔ اس قسم کے سمٹ صرف مل بیٹھنے کا بہانہ نہیں ہوتے، انہی کانفرنسوں سے مختلف ممالک، مختلف اقوام کے لئے آگے بڑھنے ترقی کرنے اور باہمی تعاون کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان میں منعقد ہونے والی 1974ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس اس اعتبار سے سب سے اہم تھی کہ اس کے حوالے سے دنیا تک پاکستان کا ایک تعارف پہنچا، پاکستانیوں کیلئے مشرق وسطیٰ کے دروازے کھلے پھر پاکستانی ہنرمندوں نے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ خلیجی ریاستوں کی تعمیر اور ان کے خدوخال سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لاکھوں پاکستانی جب سے اب تک ان ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں اور اپنی شبانہ روز محنت سے قیمتی زرمبادلہ کما کر پاکستان بھجوا رہے ہیں۔ اس کانفرنس کے بعد پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوا۔ 1997ء میں پاکستان کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اسلام آباد میں منعقد ہونے والی کانفرنس بھی اہمیت کے اعتبار سے کچھ کم نہ تھی جس میں پاکستان نے ستاون اسلامی ملکوں کی میزبانی کی۔ 1995ء میں ایکو کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس تنظیم کا اس سے قبل نام آر سی ڈی تھا۔ پاکستان کی کوششوں سے اس کانفرنس کے ممبر تین سے بڑھ کر دس ہو گئے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شامل ہونے والوں سربراہان حکومت یا سربراہان مملکت کا خطاب یوں تو دس منٹ کے دورانئے کا ہوتا ہے لیکن ان کے خطاب میں شامل ہر فقرہ ان کی ملکی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے جبکہ کانفرنس میں سائیڈ لائن ملاقاتیں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان ملاقاتوں کی تفصیلات بعض اوقات دنیا کے سامنے نہیں رکھی جاتیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی ایک اور اہمیت بھی ہے۔ یہ اجلاس ایسے وقت منعقد ہوا جب دو بڑی جنگیں جاری ہیں۔ پہلی روس اور یوکرائن کے درمیان، دوسری اسرائیل کی فلسطین، بیروت اور شام پر یلغار ہے جس میں خطرہ موجود ہے کہ یہ جنگ ایران تک پھیل سکتی ہے جبکہ ایک اور جنگ کی تیاری بھی نظر آ رہی ہے جو شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان شروع ہو سکتی ہے۔ دونوں ملکوں میں ’’بلڈاپ‘‘ نظر آ رہا ہے۔ ملکی میڈیا میں اس حوالے سے کوئی خبر کوئی تجزیہ نظر نہیں آ رہا جبکہ امریکی اور یورپی میڈیا بھی اسے ’’ڈائون پلے‘‘ کر رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو یوکرائن میں شکست ہو چکی ہے۔ اسی طرح اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ اور یورپ کو جنگ فلسطین میں ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ انہیں اور ان کے بغل بچے اسرائیل کو فلسطین میں واک اوور ملے گا لیکن فلسطینی مجاہدین حزب اللہ اور حماس نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ دونوں مزاحمتی گروپوں کے علاوہ دیگر دس مزاحمتی گروپ بھی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے۔ ان گروپوں کو اکٹھا کرنے میں چین کا اہم کردار ہے جس نے تمام گروپوں کے سربراہوں کو بیجنگ میں اکٹھا کیا۔ اس کے ردعمل میں اب امریکہ اور اس کے حواری چاہتے ہیں کہ چین کو کوریا میں الجھا دیا جائے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکی انتخابات میں اگر ٹرمپ جیت گئے تو پھر شاید یہ جنگ رک جائے، ان کی شکست اور کملا ہیرس کی جیت کی صورت شاید یہ جنگ نہ رک سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں اعلان کر چکے ہیں کہ وہ جنگوں کے خلاف ہیں۔ وہ اقتدار میں آئے تو غیر ضروری جنگ اور محاذ آرائیاں ختم کر دیں، یہ جنگیں امریکی معیشت کو تباہ کر رہی ہیں۔
گلوبل ورلڈ آرڈر میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے۔ روس اور چین اس توازن کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ روس کی طرف سے امریکہ اور یورپ کو انتباہ کیا گیا تھا کہ یوکرائن کو نیوکلیئر ہتھیاروں کی فراہمی سے گریز کریں بصورت دیگر وہ ایران کو جوہری ہتھیار دینے میں دیر نہیں کرے گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم اقتصادی ترقی، دہشت گردی کچلنے اور مواصلات کو ترقی دینے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔ 2023ء میں اس حوالے سے ہونے والی تجارت میں پاکستان نے چین سے 15ارب ڈالر، روس کے ساتھ ایک ارب ڈالر، ایران کے ساتھ بیس کروڑ ڈالر کی تجارت کی ہے جبکہ بھارت کے ساتھ تجارت گزشتہ کئی سال سے بند ہے۔ تنظیم کے ممبران نے کل 500ارب ڈالر کی تجارت کی ہے جبکہ اس میں پاکستان کا حصہ فقط پانچ فیصد کے قریب ہے جو بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں کیونکہ پاکستان کو اس تنظیم کا ممبر بنے نو برس ہو چکے ہیں، نو برس میں اگر ہم صرف پانچ فیصد کا ہدف حاصل کر سکے ہیں تو یہ کوئی بہت بڑی کامیابی نہیں ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ نو برس میں ہماری اس تنظیم کے حوالے سے تجارتی پالیسی کیا رہی ہے، ہم جاپان سے مہنگی ترین لگژری گاڑیاں اور امریکہ و یورپ سے الیکٹرانک اشیاء کی خریداری کرتے رہے جبکہ چین، بھارت اور کوریا ہمیں وہی گاڑیاں اور الیکٹرانک اشیاء نصف سے کم قیمت پر مہیا کر سکتا تھا۔ ہم نے ان کی پیشکش سے فائدہ نہ اٹھایا۔ ہم خود اپنے بوجھ میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ بھارت نے گزشتہ برس سوا سو بلین ڈالر کی تجارت کی ہے۔ ہماری اگلی امید ایس ای او کرنسی ہے شاید اس کے سبب ہم ڈالر کے پٹے سے کسی حد تک آزاد ہو جائیں۔ اسی طرح اکتوبر کے آخر میں برکس ممالک کے اجلاس سے بھی ہم نے بہت توقعات کر رکھی ہیں۔ برکس ممالک بھی کسی بھی وقت ایک نئی کرنسی کے اجراء کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ ڈالر کی کمر توڑ سکتا ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر امریکہ اور یورپ چین کو کوریا میں الجھانا چاہتے ہیں، آنے والے ایام ہمارے لئے بہت اہم ہیں، ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.