کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا!

80

شہید حکیم محمد سعید کے بارے میں دانشوران ِ قوم کی آرا ان خیالات کے آئینے میں پاکستان سے حکیم صاحب کی گہری محبت اور ان کی شخصیت کی عظمت کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے دانشور، مفکر اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر منظور احمد کہتے ہیں: شہید حکیم محمد سعید کسی ایک سبجیکٹ کے جینئس نہیں تھے لیکن وہ ان معنوں میں یقینا جینئس تھے کہ انہوں نے جو خواب دیکھے ان کو پورا کرنے کے لیے پورے استقلال و پامردی سے کام کرتے رہے۔ ان کے اندر کا انسان بہت مضبوط تھا۔ وہ نرم گفتار تھے مگر ان کے اندر فولاد کا انسان موجود تھا۔ جس کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہیں آئی۔ وہ کسی کام کا عزم اور فیصلہ کرتے اور اللہ مالک ہے کہہ کر انجام اللہ پر چھوڑ دیتے تھے۔ ان کی خاص بات جس نے مجھے متاثر کیا وہ اپنے کلچر اور مذہب کی جانب ان کا روشن خیال رویہ تھا۔ ان کے دوستوں میں عالم دین، مولوی حضرات اور مختلف مذاہب کے لوگ سبھی شامل تھے لیکن انہوں نے کسی سے نہیں کہا کہ آپ کا مذہبی رویہ کیا ہے۔ وہ کھلے ذہن کے آدمی تھے، ہمیشہ شیروانی پہنتے تھے لیکن انہوں نے کسی کو شیروانی پہننے پر زور نہیں دیا۔ وہ انسان کے دل و ذہن کو کھولنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ آدمی اندر سے اچھا ہو تو باہر سے بھی اچھا ہو جائے گا۔ وہ ایک بڑے انسان تھے لیکن ان کی حیات کے چھوٹے چھوٹے گوشے بھی متاثر کن رہے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ میں ایک فوجِ علم تیار کر رہا ہوں اور یہ بچے قلم و کتاب کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر پاکستان کی قسمت بدل دیں گے۔
معروف ادیب و محقق ڈاکٹر فرمان فتح پوری کہتے ہیں: مدین الحکمہ جس جگہ قائم ہے کل وہاں ریت اڑتی تھی، خشک جھاڑیاں اور کانٹوں کے درخت تھے آج وہاں سرسبز ماحول میں ہمدرد یونی ورسٹی اور دیگر تعلیمی ادارے قائم ہیں یہ شہید حکیم محمد سعید کی اخلاقی قوت تھی کہ وہ سیکڑوں لوگوں کو وہاں لے آئے اور ریگزار کو گلستان میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے بقول غالب وہاں کے ایک ایک نوک خار کو اپنے لہو میں ڈبویا، اسی طرح انسانی معاشرے کو تہذیب و تمدن کی جانب لایا جا سکتا ہے۔ باتوں اور نظری بحثوں سے قطع نظر ایک منزل ایسی بھی آتی ہے کہ جب مثال کی ضرورت پیش آتی ہے کہ معاشرے کے فرد کو ایسا ہونا چاہیے۔ اس مثال کے لیے حکیم صاحب کو پیش کیا جا سکتا ہے جو تہذیب و اقدار کی روشن مثال تھے۔ بظاہر جامعات کی اسناد ان کے پاس نہیں تھیں۔ لیکن کتابی علم اس وقت تک سودمند نہیں ہو سکتا جب تک اس میں مشاہدہ، تجربہ اور وجدانی فکر و شعور شامل نہ ہو۔ وہ اپنے فکر و شعور کی بدولت زندگی کے ہر شعبے کی نمائندگی کا حق رکھتے تھے۔ ان میں سچائی اور قوت عمل تھی۔ ان کی ذات کی ایک بڑی خوبی یہ تھی ایک چھوٹا آدمی بھی ان سے مل کر خود کو بڑا سمجھنے لگتا تھا۔ ان سے مل کر کوئی احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں برتری کا ایک احساس پیدا ہوتا تھا۔ وہ ایک مکمل انسان تھے، انہوں نے آدمیت کو انسانیت میں بدل دیا اور آدمی کو انسان بنانے کی بھرپور کوشش کی۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سابق سربراہ اور معروف مورخ پروفیسر ڈاکٹر ریاض الاسلام شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: حکیم محمد سعید کا شمار اپنے عہد کے عظیم ترین انسانوں میں ہوتا ہے۔ ایک ایسے عظیم انسان جو نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز سے بروئے کار لائے بلکہ انہوں نے دوسروں کی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرتے ہوئے ان سے کام لیا۔ اس کے لیے ضبط نفس کی ضرورت ہوتی ہے جو ان میں موجود تھی اور جس سے کام لے کر وہ 20 گھنٹے کام کرتے اور صرف چار گھنٹے سوتے تھے۔ انہوں نے مضبوط قوت ارادی اور خود اعتمادی سے کام لیتے ہوئے پیدائشی لکنت پر حیرت انگیز طور پر قابو پایا۔ مردم شناسی کی بھی ان میں اعلیٰ صفت موجود تھی۔ وہ پہلی نظر میں کسی انسان کی خوبیوں کو جانچ لیتے تھے۔ ان کے ذہن میںایک کمپیوٹر تھا جس میں ہر شخص کے اوصاف اور صلاحیتوں کا ریکارڈ رہتا تھا اور وقت ضرورت ان کے سامنے آ جاتا تھا۔ حکیم صاحب نے کس طرح اپنے ذہن کو اس کے لیے تیار کیا یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ انہوں نے اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں کو اس طرح تیار کیا کہ ایک قوت کے ختم ہونے سے پہلے دوسری تیار ہو جاتی تھی۔ حکیم صاحب نے نونہالوں اور نوجوانوں کی تربیت کے لیے نیز ملک کی ادبی و علمی خدمت کے لیے متعدد ادارے قائم کیے۔ متعدد جرائد و رسائل کا اجرا کیا، کانفرنسیں کیں، ان کے مقالات شائع کیے اور سیکڑوں کتب شائع کیں۔ ان کے علمی و ادبی کارنامے بے شمار ہیں۔
معروف ادیب اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت کا ذاتی حوالوں سے جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں: وہ عہد ساز اور عہد آفریں شخصیت تھے جنہوں نے اس ملک کی ترقی، فروغ اور خوشحالی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کا جذبہ عمل عشق مومن سے ودیعت تھا۔ ان کے چہرے سے عزم و ارادہ اور رفتار سے بڑا پن کا اظہار ہوتا تھا۔ ہر موسم میں سفید شیروانی میں ملبوس وہ تن و من کے اجلے تھے اور جدھر چلے جاتے اجالا پھیل جاتا تھا۔ان کا کمال شرافت یہ ہے کہ چھوٹوں کو ہمیشہ احترام و محبت سے دیکھا۔ لوگوں کے نام یاد رکھنے اور پہچاننے میں حکیم صاحب کو کمال حاصل تھا۔ وہ نام لے کر بات کرتے خواہ کتنے ہی عرصے بعد ملے ہوں۔ میں نے حکیم صاحب کو مطب، جلسوں اور محفلوں میں دیکھا ہر جگہ ان کا رویہ یکساں رہتا تھا۔ شام ہمدرد اور شوری ہمدرد حکیم صاحب کی بصیرت، دور بینی اور سوچ و بچار کا آئینہ دار اور پاکستان کی ثقافتی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ وقت کے پابند حکیم صاحب صحیح وقت معینہ پر پہنچتے تھے، خوشدلی سے دعوت قبول کرتے اور کہیں بلانے سے انکار نہیں کرتے تھے۔ وہ صوبائی گورنر، مشیر اور وزیر رہے ان کا ہر انداز ایک منفرد انداز ہوتا تھا۔ رسالہ ہمدرد نونہال، جریدہ ہمدرد صحت اور رسالہ آواز اخلاق فروغِ آگہی و شعور کے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ وہ اردو زبان میں بچوں کے اہم ترین ادیب ہیں جنہوں نے واضح منصوبہ بندی کے تحت بچوں کے لیے لکھا۔ وہ ہر اچھے فقرے کی داد دیتے تھے مثلاً جب مسجد میں اشرف صبوحی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے کہا کہ صبوحی صاحب میں نے خانہ خدا میں آپ کا سہارا لیا ہے تو جواب میں صبوحی صاحب نے کہا لیکن حکیم صاحب خانہ خدا میں آپ نے صبوحی پر ہاتھ رکھا ہے تو حکیم صاحب اس جملے سے بہت محظوظ ہوئے اور انہوں نے صبوحی صاحب کو خوب داد دی۔ حکیم صاحب درویش صفت انسان تھے جو کچھ کمایا اسے قوم کے لیے وقف کر دیا۔ محمد سعید کو موت آ سکتی ہے لیکن شہید حکیم محمد سعید کو کبھی موت نہیں آ سکتی۔
ممتاز سوشل ورکر اور کالم نگار محترمہ ممتاز راشدی کہتی ہیں: حکیم محمد سعید برصغیر کی ایک اہم قوم کے انقلابی ریفارمر تھے۔ طب میں انکی ایجادات پوری انسانیت کی بہتری کے لیے ہیں۔ وہ ماہر تعلیم بھی تھے اور انہوں نے ایک صحرا کو علم و تعلیم کا نخلستان بنا دیا۔ انہوں نے ہمارے کلچر کو تحفظ دیا جس پر ہمیں فخر ہے۔ ہمدرد یونیورسٹی نئی نسل کی سوچ میں انقلابی تبدیلیاں لائے گی اور اس کا تمامتر کریڈٹ حکیم صاحب کو جائے گا جن کی انقلابی سوچ کا نتیجہ یہ یونی ورسٹی ہے۔ چین کے لوگ حکیم صاحب اور طب چین میں ان کی ریسرچ کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بچوں سے حکیم صاحب کا پیار و محبت بے مثال ہے میں نے آج تک کسی دوسرے شخص کو بچوں سے اتنی محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں نے جب انہیں اپنے گھر پر مدعو کیا تو سفید شیروانی میں ملبوس وہ مجھے گھر کے اندر آتے ہوئے ایک پرنس (Prince) کی طرح لگے۔ میرے شوہر (جناب پیر علی راشدی) نے جب ان سے ذکر کیا کہ میری بیوی کو آپ ایک پرنس کی طرح لگے ہیں تو حکیم صاحب بہت زور سے ہنسے۔ میں نے شوہر کی موت کا غم اٹھایا ہے لیکن حکیم صاحب کی موت کا غم میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ وہ ایک متحرک سماجی شخصیت تھے۔ ان کی ‘Social will’ پہلی جبکہ ‘Political will’ ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ انہوں نے شوریٰ ہمدرد پاکستان کا ادارہ چھوڑا ہے جو ہماری سوسائٹی میں نئے نئے خیالات کی آبیاری کرتا رہے گا۔ مجھے شجرکاری سے دلچسپی رہی ہے اور حکیم صاحب بھی شجر کاری میں دلچسپی لیتے تھے، مدین الحکمہ میں سبزہ ان کی اسی دلچسپی کا مظہر ہے۔ میں زیر زمین پانی(Underground water) پر کام کر رہی تھی جو پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے اگر اس پر بھر پور توجہ نہیں دی گئی تو یہ آگے چل کر ایک بڑا خطرہ بن جائے گا جب میں نے اس کا ذکر حکیم صاحب سے کیا تو وہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ اس سے نپٹنے کے لیے پلان بنائیں میں پورا تعاون کروں گا۔ افسوس ان کی شہادت سے یہ منصوبہ نامکمل رہ گیا۔ اس ایک بات سے آپ پاکستان سے ان کی محبت اور پاکستان کے لیے کام کرنے کے ان کے جذبے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سابق سفارت کار، معروف دانشور اور شوری ہمدرد کراچی کے ڈپٹی چیرمین جناب قطب الدین عزیز نے حکیم محمد سعید کے بارے میں کہا: پاکستان بھر میں کوئی شخصیت ان کی ہم پلہ نہیں ہے جس نے پاکستان کیلیے اتنے کام کیے ہوں۔ بچہ مسلم لیگ کی صدارت سے پاکستان کی تخلیق تک وہ تحریک پاکستان میں سرگرم رہے اور تشکیل پاکستان کے بعد اس کی تعمیر میں مصروف ہو گئے۔ فروغِ علم کی خاطر پاکستان میں لائبریریوں کے قیام میں نہ صرف دلچسپی لی بلکہ ان کے لیے بڑے فنڈز دیئے۔ مدین الحکمہ ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔ یہ شہر علم و حکمت اور ثقافت پاکستان میں علوم قدیم و جدید کی ترویج کا ایک بڑا ذریعہ بنے گا۔ انہوں نے آبیاری علم کے لیے شام ہمدرد منظم کیں اور پھر شام ہمدرد کو شوریٰ ہمدرد میں بدل دیا۔ جو اس وقت ملک کا واحد غیر سرکاری بڑا تھنک ٹینک ہے۔ اسمبلیاں آتی اور جاتی رہیں گی لیکن شوریٰ ہمدرد قوم کی رہنمائی کے لیے ہمیشہ موجود رہے گی۔ تعلیم و صحت کے میدانوں میں ان کی خدمات کا جو حصہ ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔ وہ پاکستان کے لیے لڑے، اس ملک کے لیے کام کیا اور اس کو پوری دنیا میں پروجیکٹ کیا۔ انہوں نے بحیثیت گورنر کوئی سرکاری مراعات نہیں لیں۔ وہ دیانت دار اور بے داغ کردار کے مالک تھے اور قائد اعظم کے قو ل کام، کام اور کام پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔
سابق سفیر پاکستان، رکن شوریٰ ہمدرد اور ممتاز دانشور جناب مہدی مسعود کہتے ہیں: ورلڈ بینک کے سابق گورنر میکنا مارا سے جب پوچھا گیا کہ آپ کو دوبارہ ورلڈ بینک کا چارج دے کر پوچھا جائے کہ آپ دنیا سے غربت ختم کرنے کے لیے کس شعبے میں بینک کے سرمائے کو صرف (Channelize) کرنا چاہیں گے تو ان کا جواب تھا صرف تعلیم پر کیونکہ تعلیم ہی ترقی و خوشحالی کو ممکن بناتی ہے۔ ہمارے ملک میں جناب حکیم محمد سعید کو تعلیم سے عشق تھا۔ وہ تعلیم کو بہرقیمت ملک میں عام کرنا چاہتے تھے اور فرماتے تھے کہ تعلیم کے بغیر ہم کوئی پیش رفت نہیں کر سکتے اور تعلیم بھی بقول ان کے تربیت کے ساتھ ہونی چاہیے ورنہ : علم انسان کو انسان بنا دیتا ہے علم بے مایہ کو سلطان بنا دیتا ہے علم اللہ جسے دے اسے ایمان بھی دے ورنہ یہ وہ ہے جو شیطان بنا دیتا ہے حکیم صاحب میں رواداری کی خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اور سب سے بڑا وصف ان کے اندراخلاقی جرأت کا تھا۔ ان میں صاف اور سچی بات کہنے کی جرأت اور ہمت تھی۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ زبان اور ثقافت مذہب پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ حکیم صاحب زبان و ثقافت کی بہتری کے لیے کام کر رہے تھے۔ ان کے اس مشن کو اور ان کے کردار کی اخلاقی صفت (Moral quality) کو اگر ہمدرد آگے بڑھانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ اس ملک کی بڑی خدمت ہو گی۔
جامشورو انجینئرنگ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب مظفر علی شاہ کہتے ہیں: ہم شہید کے چاہنے والے ہیں۔ ہم ہجری سے شہیدوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ آج ہم ایسے مرد مومن اور شہید کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو زمین پر رہ کر آفاقی صفات کا حامل تھا۔ شہید حکیم محمد سعید کے اوصاف بیان کرناگویا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ وہ علمیت، حکمت، دیانت، ایثار و قربانی کا مجسمہ تھے۔ بچوں سے محبت اور بیماروں کی تیمارداری کرتے تھے۔ وہ حکیم بھی تھے ، ادیب و مدیر بھی تھے اور ناشر بھی۔ انہوں نیبہت کچھ کیا لیکن وہ کچھ نہ کیا جو اللہ نے منع کیا ہے۔
ہمدرد یونیورسٹی کے سابق چانسلر اور پاکستان کے چیف جسٹس (ر) جناب اجمل میاں کہتے ہیں: حکیم صاحب کامیاب ترین انسان تھے جس شعبے میں ہاتھ ڈالا اسے کامیابی تک پہنچایا۔ ہمیں گہری نظر سے جائزہ لے کر ان کی زندگی کا وہ وصف حاصل کرنا چاہیے جس نے انہیں کمال بلندی تک پہنچایا۔ انہوں نے طب مشرق کو نیا انداز عطا کیا۔ اور ہمدرد کو طبی تعلیم تک محدود نہ رکھا بلکہ سکول، کالجز اور ہمدرد یونیورسٹی میں جدید علوم کی متعدد فیکلیٹز قائم کیں۔ جامعہ ہمدرد پہلی جامعہ ہے جس نے پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مضمون متعارف کرایا۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم جناب شوکت عزیز کہتے ہیں: شہید حکیم محمد سعید نے ہمیں ایک وژن دیا، ان کے ایک ایک لفظ میںہزار ہا معنی پوشیدہ ہیں۔ وہ پاکستان کے غیرسرکاری سفیر تھے۔ ایک دن دنیا ان کی خدمات کو یقینا تسلیم کرے گی۔ ان کے تعمیر کردہ مرکز علوم (Centre of Learning) پر ہمیں فخر ہے۔

تبصرے بند ہیں.