طلبا کو منشیات کی لعنت سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟

68

چند برس پہلے پاکستان کے ایک جری مرد جرنیل سپہ سالار نے ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ منشیات بنانے اور فروخت کرنے والے بھی قومی سلامتی کے لیے اتنا ہی خطرہ ہیں جتنا کہ دہشت گرد۔ اسی طرح کے ملتے جلتے بیانات ہم منشیات کے خلاف عالمی دن کے موقع پر اکثر و بیشتر اپنے وزراء اعظم وزراء اعلیٰ گورنر اور وزرا سے سنتے رہتے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ منشیات کا پھیلاؤ اپنی تمام ترقی یافتہ شکلوں کے ساتھ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے جس کا شکار بچے خواتین طلبا و طالبات اور افراد معاشرہ ہو رہے ہیں۔ اسی مسئلے کو اجاگر کرنے کے حوالے سے انسداد منشیات کے حوالے سے سکول لائف فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام لاہور کے درجنوں سکولوں کے طلبا کے درمیان تقریری مقابلہ جس کا عنوان تھا ’’طلبا کو منشیات کی لعنت سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبا نے جہاں اس دن کی اہمیت کو اجاگر کیا وہیں منشیات کے استعمال کے نقصانات سے آگاہ کیا گیا، یہ بات سچ ہے کہ اگر ہمارے تعلیمی ادارے بچوں کے اندر چھپے ٹیلنٹ کو مثبت سرگرمیوں کے ذریعے باہر لائیں اور انہیں مواقع فراہم کریں کہ وہ اپنے جذبات اور خیالات کا آزادانہ اظہار کر سکیں تو کوئی وجہ نہیں اس ملک کے بچے بہترین مقرر، مصور، میوزیشن، گلوکار، اداکار، ڈرامہ نویس، کالم نگار، استاد، سائنسدان بن کر معاشرے کا روشن چہرہ بن اور ملک کی بہترین خدمت کر سکتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس تقریری مقابلے میں بچوں کی تقاریر سنتے ہوئے ہوا، جن بچوں نے اس مقابلے میں حصہ لیا ان کے سکول اور ٹیچرز کی محنت بچوں میں بول رہی تھی، اس حوالے سے ’’سکول لائف‘‘ کی کوششیں بھی قابل ستائش ہیں جو بچوں کے ذہنی و جسمانی نشو و نما کے ساتھ ملکی و قومی اہم مسائل کو طلبا کے ذریعے اجاگر کر کے ملک کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ تقریری مقابلے میں اساتذہ، والدین اور طلبا کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ہم سمجھتے ہیں حکومتوں کو اس طرح کی تقریبات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جن میں قومی و بین الاقوامی مسائل کو اجاگر کیا جا رہا ہو اس سے ایک طرف بچوں میں لکھنے پڑھنے کا شعور بڑھتا ہے تو دوسری جانب ان میں اعتماد کے
ساتھ بات کرنے کا حوصلہ ملتا ہے جبکہ معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ ملتا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ منشیات دہشت گردی سے بھی زیادہ تباہ کن اور نقصان دہ ہے اس کا شکار افراد زندوں میں ہوتے ہیں نہ مردوں میں، جس گھر کا کوئی فرد اس لعنت کا شکار ہو جاتا ہے وہ پورا گھرانہ ایک نہ ختم ہونے والی اذیت، تکلیف اور مصائب کا شکار ہو جاتا ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ منشیات کی تباہ کاری کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این او ڈی سی) کی رپورٹ میرے سامنے ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب افراد نشے کے عادی ہیں۔ مختلف طریقوں سے نشہ آور اشیا کا استعمال کرنے والوں میں 15 سے 64 سال کی عمر کے افراد شامل ہیں۔ نشے کے عادی افراد میں 20 فیصد خواتین ہیں۔ 16 لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں اور اس میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ یہ سروے گزشتہ برس کرایا کیا گیا تھا اور اس کے نتائج اس بات کے متقاضی ہیں کہ پاکستان کو منشیات کے استعمال کی روک تھام کے لیے اب صرف حکمت عملی ترتیب دینے کے بجائے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
اس مسئلے کا سب سے تشویش ناک پہلو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی کے باوجود ان کے علاج معالجے اور بحالی کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس وقت ملک میں سرکاری طور پر نشے کے عادی افراد کے لیے بحالی کے صرف تین مراکز ہیں جن کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ جبکہ بڑے شہروں میں جو نجی ادارے موجود ہیں ان کا علاج اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی یہاں کا رخ نہیں کرتا۔ یہاں بھی صرف مریض کو پابند رکھا جاتا ہے جبکہ اس کا علاج جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے نہیں کیا جاتا بلکہ ایسے کئی اداروں کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ایک کمرے میں نشے کے درجنوں مریضوں کو بند کر دیا جاتا ہے جہاں انہیں کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ہوتی بلکہ یہ لوگ کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
نشے کا سب سے زیادہ استعمال صوبہ پنجاب میں جب کہ اس کے بعد خیبر پختونخوا کا نام آتا ہے۔ اس بارے میں وفاقی حکومت کے عہدیداروں کا مؤقف ہے کہ ملکی آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کے حوالے کر دیا گیا تھا اس لیے اب صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس صورتحال پر قابو پائیں۔ امریکی جریدہ ’’فارن پالیسی‘‘ لکھتا ہے کہ پاکستان میں منشیات کی لت سے روزانہ 70 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یعنی ایک ماہ میں اکیس سو افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہلاکتوں کے یہ اعداد و شمار دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہیں پھر بھی ان ہلاکتوں کو روکنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این او ڈی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان کی 45 فیصد منشیات پاکستان سے گزرتی ہے۔ لہٰذا ایک کروڑ پاکستانی جو منشیات کے عادی ہیں یا اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں، انہیں اس منشیات تک رسائی بہت آسان ہیں۔
منشیات کے عادی افراد میں تباہ کن بیماریوں میں ایڈز کی شرح سب سے زیادہ ہے جو دنیا بھر میں 13 فیصد جبکہ پاکستان کے شہر کراچی میں اسکی شرح 42 فیصد ہے۔ کراچی میں منشیات کے عادی ہر سال بڑی تعداد میں ایڈز میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ منشیات کے استعمال کے تباہ کن اثرات کا شکار ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کے 6۔7 ملین سے زائدافراد نے منشیات کا استعمال کیا۔ پاکستان میں 4.5 ملین منشیات کے عادی افراد کو علاج و معالجہ اور خصوصی طبی اقدامات کی سہولیات کی کمی ہے، جبکہ یہ سہولیات سال بھر میں 30 ہزار افراد سے بھی کم افراد کو میسر ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ منظم علاج معالجہ بھی مفت نہ ہونے سے ہزاروں افراد منشیات سے چھٹکارہ حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ پنجاب میں بھی نشہ کرنیوالے افراد کی تعداد بھی کچھ کم نہیں 15 سے 64 سال کی عمر کے افراد مختلف طریقوں کے نشے کے عادی ہیں صوبے کے 8لاکھ 40 ہزار افراد ہیروئن اور 86 ہزار افراد افیون کا نشہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں منشیات کا شکار افراد میں سرنج سے نشہ کرنیوالے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہ افراد نشے کے دوران ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرتے ہیں جس سے ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپاٹائٹس سمیت دیگر بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.