شنگھائی تعاون تنظیم کاسربراہی اجلاس‘ بڑی سفارتی کامیابی

50

شنگھائی تعاون تنظیم کا 23واں سربراہی اجلاس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں چین اور روس سمیت متعدد رکن ممالک کے وزرائے اعظم جبکہ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر بھی شریک ہیں۔اس اجلاس میں شرکت کیلئے بڑی تعداد میں عالمی رہنمائوں کی پاکستان آمد کو ایک بڑی سفارتی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ملک دشمن عناصرکافی عرصہ سے یہ منفی پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ پاکستان سفارتی محاذ پر اکیلا رہ گیا ہے اور اب دنیا کی نظرمیں پاکستان کی پہلے جیسی وقعت نہیں رہی۔ تاہم شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میںچینی اور روسی وزرائے اعظم کی شرکت دنیا کو یہ پیغام ہے کہ پاکستان کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ دنیا آج بھی ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے کامیاب انعقاد سے ملک کا پرامن اور سافٹ امیج دنیا میں جائے گا جس سے یہاں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا ۔ ایس سی او اجلاس میں معیشت، تجارت، ماحولیات اور سماجی و ثقافتی روابط کے شعبوں میں جاری تعاون پر تبادلہ خیال اور تنظیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، تنظیم کے رکن ممالک باہمی تعاون کو مزید بڑھانے اور تنظیم کے بجٹ کی منظوری کے لیے اہم تنظیمی بھی فیصلے کریں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001ء میں چین اور روس نے رکھی تھی جس کے اراکین میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، انڈیا اور ایران شامل ہیں۔ کیونکہ آبادی کے لحاظ سے دو بڑے ممالک انڈیا اور چین اس تنظیم کے رکن ہیں اس لیے یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد کا ایک فورم ہے۔ پاکستان 2005ء سے 2017 ء تک اس تنظیم کا آبزرور رکن رہا اور پھر جولائی 2017 ء میں اسے باضابطہ طور پر ایس سی او میں شامل کیا گیا۔ اس تنظیم کا آغاز ایک یوریشیائی سکیورٹی تنظیم کے طور پر ہوا جس کا مقصد روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان سکیورٹی اور استحکام کو فروغ دینا تھا۔ 2017 ء میں، انڈیا اور پاکستان کی مکمل رکنیت اور افغانستان کی مبصر کی حیثیت سے شمولیت کے بعد تنظیم نے اپنے دائرہ کار کو وسیع کیا۔ گزشتہ برس ایران کو بھی تنظیم کی باقاعدہ رکنیت دے دی گئی۔ اب ایس سی او کی توجہ دہشت گردی، انتہا پسندی، منشیات کی سمگلنگ اور بنیاد پرستی جیسے مشترکہ مسائل پر ہے۔ ایس سی او کی تشکیل اور بعد ازاں پھیلاؤ کے وقت اسے ایک ایسے اتحاد کے طور پر دیکھا گیا جو مغربی اتحاد جیسا کہ نیٹو کو ’کاؤنٹر بیلنس‘ کرنے کے لیے اس کے متبادل اتحاد کے طور پر قائم کیا گیا۔
شنگھائی تعاون تنظیم چین، روس، پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک کی وجہ سے آبادی کے لحاظ سے بڑا اتحاد ہے جبکہ یہ دنیا کے 40 فیصد رقبے کو بھی کور کرتا ہے۔ اگرچہ اس کا ڈھانچہ نیٹو سے مختلف ہے اور فوجی صلاحیت محدود ہے، لیکن اس تنظیم کا قیام خود ایک مثبت قدم تھا۔شنگھائی تعاون تنظیم کا مقصد یہ نہیں کہ یہ مغربی اتحادوں سے تصادم کرے بلکہ یہ ایک متوازن اتحاد بننے کا موقع فراہم کرتی ہے جس سے خطے میں کشیدگی کم ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ دنیا میں اس وقت کئی ایسے اتحاد موجود ہیں جو معیشت یا سکیورٹی اور دفاعی ضروریات کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان میں بڑے اتحاد جیسا کہ جی سیون، جی ٹوئنٹی، کواڈ، نیٹو اور ایس سی او ہیں۔ جی سیون اور جی ٹوئنٹی تو معیشت اور اقتصادی امور پر بنے الائنس ہیں جن کی توجہ کا مرکز رکن ممالک میں معاشی استحکام، ترقی اور سیاسی ہم آہنگی کا فروغ ہے۔ تاہم نیٹو 32 ممالک کا فوجی اتحاد ہے جس کا مقصد مشترکہ دفاع اور رکن ممالک کی سلامتی ہے۔ اس اتحاد میں ایک ملک پر حملہ، تمام رکن ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب ایس سی او اتحاد کی توجہ کا بنیادی مرکز علاقائی سیکورٹی اور استحکام، معاشی تعاون، دہشت گردی کے خلاف اقدامات ہیں۔ تاہم محدود فوجی صلاحیت اور رکن ممالک کے درمیان داخلی اختلافات اس اتحاد کی بڑی کمزوریاں سمجھی جاتی ہیں۔ تو کیا شنگھائی تعاون تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے؟ یہ بحث طلب ہے۔ مگر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ایسے ایک اتحاد یا تنظیم کا موجود ہونا بھی ایک مثبت بات ہے۔ شروع میںکمزور نظر آنے والی یہ تنظیم اب مضبوط ہو رہی ہے۔سوویت یونین سے جو ملک بنے وہ بہت سے شعبوں میں کمزور تھے۔ انھیں بھی سہارے کی ضرورت تھی۔ جب یہ تنظیم بنی تو ان ممالک کو احساس ہوا کہ اگر تعاون جاری رہا تو وہ بہتر ہو سکتے ہیں اور بیرونی اثر و رسوخ بھی ختم ہو گا۔ تنظیم کے قیام کے آغاز میں مغربی ممالک کے مقابلے مشرقی ممالک کا یہ اتحاد طاقت کے اعتباد سے کمزور نظر آتا تھا لیکن اب اس کی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران کی شمولیت سے یہ تنظیم مزید مضبوط ہوئی ہے اور اب ایس سی او بہت سے مسائل پر بات چیت کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن گیا ہے۔یہ ایک اہم علاقائی تنظیم ہے جو یوریشیا میں سکیورٹی اور تعاون کو فروغ دیتی ہے۔اگرچہ یہ دو طرفہ تنازعات کو حل کرنے کا فورم نہیں لیکن یہ رہنماؤں کے لیے ملاقات اور مشترکہ مسائل پر گفتگو کا موقع فراہم کرتی ہے۔
یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ عالمی سطح پر بننے والے اتحاد بہت آہستگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔اس وقت دنیا میں بہت سے اتحاد موجود ہیں، اور ضروری نہیں کہ ایک ملک ایک ہی اتحاد کا حصہ ہو۔ وہ بیک وقت کئی اور بعض اوقات متضاد ایجنڈے کے حامل اتحادوں کا حصہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا جو ایس سی او کا رکن ہے مگر اس کے مخالف ممالک کے اتحاد کواڈ کا بھی رکن ہے۔ رکن ملکوں کے آپسی اختلافات بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر ایسے اتحاد کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ رکن ممالک اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور جن امور پر بات چیت اور تعاون ممکن ہے، ان پر غور کریں۔ ایس سی او کاحالیہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب عالمی سطح پر کئی ممالک تنازعات کی زد میں ہیں۔ ان میں سے بعض بڑے ملک اس تنظیم کا حصہ بھی ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ ان عالمی تنازعات میں شامل ہیں جیسا کہ روس اور ایران۔ ایس سی او کے اجلاس کی اسی ’ٹائمنگ‘ کی وجہ سے اسے خاصا اہم سمجھا جا رہا ہے۔ اگرچہ دو طرفہ امور پر بات چیت شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر میں شامل نہیں، تاہم رکن ممالک کے پاس یہ موقع ضرور ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں اور بات چیت کا دروازہ کھولیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا یہ اجلاس اپنے مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے؟ ۔

تبصرے بند ہیں.