شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس اور ہم

42

شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس شروع ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے چین اور پاکستان نے 13معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کئے۔ چینی وزیراعظم لی چیانگ اجلاس سے ایک روز قبل پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاملات پر مذاکرات کئے اور اس طرح 13معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط ہوئے۔ پاک چین تعلقات عمومی دوستی سے آگے بڑھتے ہوئے سٹریٹجک سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ چین کا تین براعظمی منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI)جسے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR)بھی کہا جاتا ہے ایشیا یورپ اور افریقہ کو باہم منسلک کرکے تجارتی مفادات کو آگے بڑھانے کے مرکزی خیال پر مشتمل ہے۔ اس منصوبے میں سی پیک انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے لئے سی پیک گیم چینجر بن چکا ہے صرف اقتصادی ترقی کے حوالے سے ہی نہیں، پاکستان کی علاقائی اہمیت اور عالمی پوزیشن کے اعتبار سے بھی یہ سب کچھ اہم ہے۔ اب چین جیسی اہم ایٹمی و معاشی قوت پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے صرف دوستی نبھانے کے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے بھی چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ ساتھ کتابی نہیں ہے بلکہ عملاً بھی پاکستان اس سے مستفید ہو رہا ہے۔ چین کی ٹیکنالوجی میں جدت و اختراعات پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں آئی ٹی سے متعلق زیادہ تر انفراسٹرکچر چین سے درآمد کردہ ہے۔ ہماری ریٹیل مارکیٹس میں چینی اشیاء کی صرف بھرمار ہی نہیں ہے بلکہ ہر شے میڈ ان چائنا ہے۔ یہ چینی اشیاء کی درآمدات کا کمال ہے کہ ہمارے عام اور غریب شہری بھی ان اشیاء سے مستفید ہو رہے ہیں پاکستان نے اپنی دفاعی ضروریات کے لئے چینی اسلحے پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسلحہ سازی میں چین کے ساتھ کئی مشترکہ منصوبوں پر کام جاری ہے۔ جے ایف تھنڈر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سب سے اہم انٹیلی جنس شیئرنگ ہے چین کی اس صلاحیت کے باعی پاکستان کے دفاع کی صلاحیت میں خاصی بہتری آئی ہے۔ پاکستان اسی معلومات کی شیئرنگ کے باعث کئی مرتبہ ہندوستان کے مذموم عزائم ناکام بنا چکا ہے۔ سی پیک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین کے ساتھ ملکر پاکستان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے منصوبے پر بھی غور کر رہا ہے گویا دہشت گرد صرف پاکستان کے ہی دشمن نہیں ہیں بلکہ چین کے مفادات پر بھی ضرب لگاتے ہیں اس لئے ان کا خاتمہ دونوں ممالک کی مشترکہ کاوشوں سے کیا جانا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بھی چین پاکستان کے ساتھ کھڑ ہے اور پاکستان کے موقف کا حمایتی ہے حالانکہ بھارت کے ساتھ چین کے تجارتی تعلقات بھی ہیں اس کے باوجود چین پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ چین نے 1965ء میں بھی ہمیں بھارتی عزائم سے قبل از وقت خبردار کر دیا تھا اس سے پہلے 1962ء میں جب چین نے بھارت کو سبق سکھانے کے لئے اس پر لشکرکشی کی تو ہم ایسے موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ کشمیر پر ہمارا دعویٰ ضرور ہے لیکن ہم اپنے اس دعوے پر اس طرح طاقت کے ساتھ، جرأت کے ساتھ اصرار نہیں کر سکے جس طرح کیا جانا چاہئے تھا۔ بھارت نہ صرف کشمیر کو اپنے آئین کے مطابق ہڑپ کر چکا ہے بلکہ خطے کی ایک اہم طاقت بن چکا ہے۔ دنیا کی تیسری چوتھی بڑی معاشی قوت کے طور پر اپنے پر پرزے نکال رہا ہے۔ سلامتی کونسل کا ممبر بننے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ اس کی سفارتی چابک دستی ہے کہ وہ چین کے ساتھ علاقائی تنازع ہونے کے باوجود اقتصادی تعاون میں شریک ہے۔ دو طرفہ تجارت ہوا ہی ہے ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ چین کی بڑائی ہے کہ ہر عالمی فورم پر جہاں پاکستان کے مفاد کو بھارت نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، چین پاکستان کی مدد کو آتا ہے لیکن جب بات ہمارے اوپر آتی ہے تو کسی دوست ملک کو فائدہ دینا تو درکنار ہم تو اپنے لئے پیدا شدہ امکانات سے فائدہ تلاش نہیں کر پاتے۔ معاشی میدان ہو یا سفارتی معاملات، ہم چابکدستی اور ہوشیاری سے اپنے لئے فائدہ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا سیاسی و سفارتی نظام ہے ذرا یاد کریں 2014ء میں جب چینی صدر کی آمد طے شدہ تھی تو پی ٹی آئی نے طویل دھرنا دیا۔ اسلام آباد پر قبضے کی صورتحال پیدا کر دی تھی، دورہ ملتوی ہوا۔ پاکستان کے مفادات کو ٹھیس پہنچی پھر عمران خان نے اپنے 44ماہی دور حکمرانی میں پاک چین تعلقات کو جس طرح خراب کرنیکی کاوشیں کیں سی پیک پر اعتراضات اٹھائے اس پر کام روک دیا گیا پھر آئی ایم ایف کے ساتھ جو طرزعمل اختیار کیا گیا اس سے ہم مالی محاذ پر تنہا رہ گئے۔ سعودی عرب اور ملائیشیا کے معاملات میں عمران خان نے جس حماقت کا ثبوت دیا وہ ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ترکی کے ساتھ معاملات میں بھی کچھ ایسا ہی بچگانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ ذرا افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے خروج کے بعد پاکستان کے لئے جو مثبت امکانات پیدا ہوئے تھے ہم اس سے بھی کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ہم دو دھائیوں تک افغانوں کے مددگار اور مہمان بنے رہے اور اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ افغانستان ہمارے دہشت گردوں کا سہولت کار بنا ہوا ہے۔ افغان سرزمین ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان دشمن گروہوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔ افغان ہمیں آنکھیں کھاتے ہیں، ہم اب بھی ان کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہیں۔ لاکھوں افغانی یہاں مقیم ہیں۔ پاکستان پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں، یہاں کاروبار کر رہے ہیں لیکن ہماری مبہم اور غیر حقیقی پالیسیوں کے باعث وہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ہماری علاقائی سالمیت کا احترام نہیں کرتے ہیں۔ ہم پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ہمارا غیر مستحکم سیاسی نظام اس سلسلے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی مہمان داری کے ذریعے پاکستان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے۔ سفارتی سطح پر اس کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے، اقتصادی ترقی کے روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ روس کا بہت بڑا وفد آیا ہے تو سیر سپاٹے کے لئے تو نہیں ہے۔ ہمیں روس کے ساتھ نئے بات کا آغاز کرنا چاہئے۔ چین کی موجودگی میں روس کے ساتھ معاملات کرنے میں ہمیں آسانی ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یکسوئی کے ساتھ معاملات دیکھیں اور ان میں اپنے مفادات کے مطابق مواقع تلاش کرکے انہیں روبہ عمل لائیں۔

تبصرے بند ہیں.