شنگھائی تعاون کانفرنس…

44

پاکستان میں ہونے والی شنگھائی تعاون کانفرنس میں ملکی مفاد میں بے پناہ معاہدے ہورہے ہیں جو ملک کے ایک انتقام سے بھرے ہوئے غیرملکی ایجنڈے پر مامور طبقے کو ایک آنکھ نہیں بھارہے ۔ وہ اسلام آباد کی عالیشان سڑکوں پر اتنے ملکوں کے سربراہوں کو خوش آمدید کہنے کی بجائے فیس اور ٹریٹرپر سڑبھن رہے ہیں ، کبھی کہتے ہیں غریب ملک میں یہ تللے اور خان کی بیرونی سربراہوں کی ڈرائیونگ کو یکسر بھول جاتے ہیں CDAنے اسلام آباد کی سڑکوں کو دلہن کی طرح سجادیا ہے محمد علی رندھاواجب لاہور کے کمشنر تھے تو تیس پینتیس دن میں دیو ہیکل اور ہیڈ برجز میلوں لمبے اور انڈر پاسز بنائی جارہے تھے دن رات جاگ کر کام کرنے والا یہ افسر اب اسلام آباد شنگھائی کانفرنس کی میزبانی میں پورا شہر سجا کر بیٹھا ہے وہ چیف کمشنر بھی ہے اور پی ٹی آئی کی تمام تر گیدڑ بھبھکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دن رات اسلام آباد کی خدمت میں ہے۔
آئی جی پنجاب سید نام کا جب مقابلہ نہیں کرسکے تو پی ٹی آئی جتھا نے ان کے تبادلے کی شرط رکھ دی پی ٹی آئی شرطوں کی نچلی سطح پر اترتے اترتے یہاں تک آتی گئی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جھلک ڈاکٹر ہی کو دکھا دیں نہیں تو ہم احتجاج کریں گے حماد اظہر کے بیان اور شندانہ بی بی کے بیان پر سوائے ہنسنے کے کیا کیا جاسکتا ہے ؟
یہ تو وہی بات ہوگئی جن دنوں روز ڈرون اٹیک ہوتے تھے اتنی ہی مرتبہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کہتے تھے ہم امریکہ کو ڈرون اٹیک کی اجازت نہیں دیں گے بندہ پوچھے آپ سے اجازت مانگ کون رہا …پی ٹی آئی کا بھی یہی حال ہے اگلے بات کرنے کو تیار نہیں اور یہ شرطیں رکھ رہے ہیں جبکہ علی امین گنڈہ پور کے تمام تر ڈرامائی ایکشن کے بعد یہ بھی طے ہوچکا کہ ہیوی مشینری اور سرکاری بندے اب کے پی سے نہیں ملنے کے …بلکہ پچھلے جتھوں کو بھی جتنے سرکاری بندے مشنری اور اسلحہ دیا گیا اس کا بھی آڈٹ شروع ہوگیا پنجاب کی خواتین سربراہان مریم نواز اور شیرنی عظمیٰ بخاری نے جیسے گنڈہ پور کو بھگایا اس کے کم ازکم حماد اظہر کی گیدڑ بھبھکیاں نہیں بنتی تھیں۔
فیس بک پر جیسے ہی میں کوئی ترقی یا کانفرنس کی خوشی پاکستان کے وقار کی کوئی خبرلگاتی ہوں برسات کے مینڈکوں یا پھر ’’ گنڈویوں‘‘ کی طرح ’’زہریلے‘‘ بلوں سے نکل کے ملک کو صلواتیں سنانے اور مجھے لفافے کی طعنہ بازی شروع کردیتے ہیں حالانکہ ان کا اپنا خان پونے چارسال میں ایک نالی بھی نہ بناسکا اور دوتاریا خزانہ خالی ہے تو پھر ہم کون سے خزانے سے فیضیاب ہورہے ہیں ہم نے کون سے تین سوکنال کے گھر بنالیے ہیں۔
گنڈوئے برسات میں کونوں کھدروں سے نکل کر سارے لان کا حسن برباد کردیتے ہیں اس طرح یوتھیاز کو میں ’’زہریلے‘‘ کہتے ہیں ان میں اتنا زہر بھرا ہے کہ خدا کی پناہ مگر بدقسمتی سے گنڈویوں کو مٹی کے سانپ کہتے ہیں مٹی کا سانپ جتنا بھی زہریلا ہوں اپنے حریف کو نقصان نہیں پہنچا سکتا یہ کون سمجھتا ہے کہ نومئی کا تسلسل ٹوٹ گیا یہ مسلسل جاری ہے ہردن ان زہریلوں کا نومئی ہوتا ہے، یہ ڈر سہم کر سڑکوں سے تو بھاگ گئے ہیں مگر سوشل میڈیا پر وطن فوج اورترقی کے خلاف صف آراء ہوجاتے ہیں۔ احساس کمتری اتنا ان لوگوں میں اپنے حکمرانوں کو فقیر اور غیرملکوں میں خود جوتے گھسا کر جو چارپیسے کماتے ہیں وہ ملک کے خلاف مظاہرے کرکے پورے کردیتے ہیں۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ جو چارپیسوں کیلئے وطن کی گلیوں کو چھوڑ گئے وہ محض اپنی پارٹی نائٹ کیلئے یوکے کی پولیس کو بھی تماشا دکھاتے ہیں اگر سیاسی سوجھ بوجھ اور وطن کی ترقی سے پیار ہوتا تو یہیں رہ کر اس کی خدمت کرتے جن لوگوں نے صرف پیسے کیلئے وطن کو ٹھکرا دیا انہیں خبر ہو کہ وطن کی مٹی بھی انہیں ٹھکرا چکی ہے پھر جب وہاں کی سرزمین انہیں قبر کی جگہ نہیں دیتی تو ’’بکسے ‘‘ میں بند ہوکر پاکستان آجاتے ہیں۔
انہیں اتنی پاکستان سے نفرت ہے تو پاکستان سے چلے کیوں نہیں جاتے قائداعظم کا پاکستان سدا قائد ہی کا دیس رہنا ہے حتٰی کہ ان کی بیٹی جب پاکستان آئی جسے قائد نے اپنے نظریئے اور وطن کی محبت میں قربان کردیا تھا تو میں نے کالم لکھا تھا ’’ بابل کا دیس‘‘ جس کا آغاز تھا وطن کسی کے باپ کا نہیں ہوتا مگر دینا جناح کے باپ کا ہے ۔
برصغیر کے تمام بڑے لیڈروں نے جدوجہد آزادی کی کٹھنائیاں سہیں۔ گھربار بھی اجڑے مگر لوگوں کے گھروں کو آباد کرنے کیلئے انہوں نے اپنے گھر اجاڑلئے اسی قائد کے دیس میں چند شرپسندنئے پاکستان کا مطالبہ کرنے لگے نہ صرف اتنا ہی بلکہ اس موجود وطن اور اس کے رکھوالوں شہیدوں تک کے درپے ہوگئے یہ ایک ایسی انوکھی نسل پروان چڑھ چکی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ آپ تیس دن کی محنت کے بعد جو روٹی کا نوالہ کھارہے ہیں ان کے ٹیکس کی بھیک ہے حالانکہ ان میں سے کوئی فائلرتک نہیں نکلے گا اور سارے تنخواہ دار جو بقول ان کے ان کے ٹیکس پر زندہ ہیں تین چوتھائی حصہ تنخواہ کا ٹیکس میں دے دیتے ہیں ۔
دوسرا یہ اپنی ہی فوج سے نجات چاہتے ہیں جبکہ دشمن کی دو’’چپیڑیں‘‘ نہیں کھا سکتے فوج ہی سرحدوں پر ان ’’زہریلوں‘‘ کی بھی حفاظت کرتی ہے۔
چند بچے کھچے ان کے اینکرز ٹی وی چینلز پرشرمندہ ہو رہے ہرتے ہیں ان کی شنگھائی تعاون کانفرنس پر احتجاج کو صحیح کہنا ان کیلئے بھی مشکل ہورہا ہوتاہے مگر پھر بھی کہتے ہیں کہ ان سے مذاکرات کرکے سمجھائیں حالانکہ حرف آخر یہ ہے کہ آپ دنیا کی کسی بھی قوم کو سمجھا سکتے ہیں مگر قوم یوتھ کو نہیں۔

تبصرے بند ہیں.