گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر گائوں کے ایک بچے حیدر جس کی عمر صرف سات سال ہے اس کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ اس کے وائرل ہوتے ہی جگہ جگہ اس کے چرچے ہونے لگے۔ اب شومئی قسمت کے سوشل میڈیا نے ایک ایسا طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے اور اس کا زور اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے ایک بچے کی مرغی چوری ہوتی ہے اور وہ اپنی زبان ماں بولی پنجابی میں بڑے معصومانہ انداز میں پولیس کے پاس مرغی چور کے خلاف پرچہ دینے کی بات کر رہا ہے۔ حیدر کی یہ ویڈیو جیسے ہی وائرل ہوئی ہر طرف اس کے چرچے ہونے لگے حتیٰ کہ بھارت میں بھی اس کو سوشل میڈیا پر بہت پسند کیا گیا۔ اب قصہ کچھ یوں ہے کہ اس بچے کا چچا پولیس میں اور اس کا والد گائوں میں کھیتی باڑی کرتا ہے۔ اب دیہاتی مزاج میں پلنے والے بچے نے اپنے ہی سٹائل اور انداز میں بات کی، اس کا یہی انداز شاید سب کو بھا گیا اور وہ راتوں رات اپنی مرغی کی چوری کا پرچہ کرانے چل نکلا پھر وہی ہوا جو ہمارے ہاں ایک بھیڑ چال ہے کہ ہم جہاں تماشا لگتا دیکھتے ہیں ادھر ہی کا رخ کر جاتے ہیں۔ اس ویڈیو کے بعد بڑے بڑے یو ٹیوبر اس کے گائوں پہنچ گئے اور اس کی گفتگو کے انداز سے لے کر اس کی معصومانہ حرکات تک کو لوگوں تک پہنچایا تو ہمیں احساس ہوا کہ دنیا واقعی بہت آگے نکل گئی اور پھر کہتے ہیں کہ اللہ جسے عزت، شہرت اور نام دے تو ان میں ایک گائوں کا سات سالہ حیدر بھی راتوں رات میڈیا کی زینت بن جاتا ہے۔ حیدر کی اس ویڈیو کے اتنے چرچے ہوئے کہ اس کو ایک بڑے میڈیا ہائوس کے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس پروگرام کے مختلف کلپ اب سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اب اس سات سالہ دیہاتی بچے کو علم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کون اس کو دیکھ رہا ہے، صرف مرغی اور پولیس اس کا ایشو ہے اور یہ شہرت وہرت کیا ہوتی ہے وہ بچہ اس قدر معصوم ہے کہ وہ ابھی تک لفظ تم میں پھنسا ہوا ہے۔ آپ کا لفظ اس کی زبان پر نہیں چڑھایا گیا اور ہر مخاطب کو تم کے لقب سے پکارتا ہے۔
ٹی وی شو میں حیدر نے جہاں معصومانہ اور مزاحیہ انداز میں مختلف سوالات کے جواب دیئے، تو ہمیں پنجابی کلچر کی بڑی شدت سے یاد آئی پھر اس بچے کا دیہاتی انداز میں اٹھنا، بیٹھنا اور زبان سے ادا کئے فقروں کوہاتھوں سے ادا کرنا دیکھنے کو تو یہ ویڈیو بہت دلچسپ ہے اور آج ہم جس مہنگائی اور گھٹن کے دور میں ’’جی‘‘ کے جی رہے ہیں ایسے میں اس طرح کی ویڈیو کسی ایک لمحے کی خوشی کے لیے بھی ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہے۔ اس معصوم حیدر کی دو باتوں نے ہم سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ایک تو اس کا انداز زندگی جس میں شہر کے بچوں جیسی بناوٹی باتیں، ادائیں اور ان کی امارت دکھائی دیتی ہے وہ سب کچھ حیدر میں نہیں تھا۔ ایک مکمل گائوں کا دیہاتی بچہ جسے ابھی صحیح بولنا بھی نہیں آیا۔ دوسرا وہ اپنے معصومانہ انداز میں بہت بڑی باتیں کر گیا۔ اس سات سالہ بچے کو یہ بھی علم ہے کہ پولیس پیسے لئے بغیر پرچہ نہیں کاٹتی۔ اس کا یہ کہنا کہ گائوں میں یہ بات ہو رہی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے سکول الگ الگ ہونا چاہئیں، اس کا یہ بھی کہنا کہ گائوں کا ایک سکول پرائیویٹ ہے۔ سکول کے اندر ایک دیوار کھڑی کر دی گئی ہے، ادھر لڑکے تو ادھر لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ وہ بچہ ابھی سے ایجوکیشن کے اچھے برے کی بات کر رہا ہے۔ آگے جا کر وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کو گائوں کی بارش بہت اچھی لگتی ہے۔
اس ویڈیو کو جہاں طنز و مزاح کے انداز میں دیکھا جا رہا ہے وہاں اس حیدر کی زبان، اس کے انداز اور حتیٰ کہ اس کے کان میں ایک مندری ہے اس پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے۔ میرے خیال میں اعتراضات کرنے والے وہ شہری لوگ ہیں جو دیہاتی کلچر، دیہاتی انداز زندگی اور دیہاتی زبان سے ناواقف ہیں۔ وہ اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ دیہاتوں میں مائیں اپنے بچوں کو شوق سے کانوں میں بالی پہناتی ہیں تاکہ بچے کی شناخت بھی ہو۔ آج بھی گائوں کے اکثر بچوں کے کانوں میں آپ مندری دیکھیں گے۔ اب میں آتا ہوں اس تنقید کی طرف جو سوشل میڈیا کی زینت بنی کہ ایسے بچوں کو مت ٹی وی پر لائیں جن کی زبان درست نہیں ۔ یہ ہے وہ جاہلانہ سوچ جو شہروں میں زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ بناوٹی زندگی میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ ان کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ اصل زندگی ہے کیا۔ حیدر کی زبان اور اس کے انداز گفتگو کو غور سے سنیں تو آپ کو وہاں اصل زندگی نظر آئے گی۔ اس کی شکل پر مت اعتراضات کریں، وہ بہت خوبصورت ادائوں والا بچہ ہے۔ فرق صرف یہ کہ وہ دیہاتی ہے اور اپنی اصل زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ وہ شوارما اور پیزا جیسی شہری خوراکوں کے مقابلے میں ساگ اور مکئی کی روٹی کھاتا ہے۔ آج آپ کسی بھی شہری بچے سے پوچھیں کہ باجرہ یا باجرے کی روٹی کیا ہے؟ تو نہیں بتائے گا کہ وہ تو شہری کلچر میں پل رہا ہے۔
اب حیدر پر مختلف طبقہ فکر نے جو سوالات اٹھائے کہ بچے نے تہذیبی انداز میں کیوں بات نہیں کی جس کی میں اوپر وضاحت کر چکا ہوں کہ اس کا تُوں تُوں کے ساتھ بات کرنے کا سٹائل نیچرل ہے جس کی اسے دیہاتی ماحول میں تربیت ملی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے ہاں جو طبقاتی تقسیم ہوئی اور جس نے آپ کے گھروں اور رشتوں کو توڑ کے رکھ دیا اور یہ خلیج بجائے کم ہونے کے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے یہ خلیج جو دیہاتوں اور شہروں میں برائی کی طرح بے لگام ہوگئی۔ اب اگر دیہات میں توں کرکے اگر کوئی بات کرتا ہے تو یہ وہاں کا کلچر ہے۔ الزام لگانے والے یہ نہیں دیکھتے کہ جب بھی شہری بچے ٹی وی پر بلائے جاتے ہیں تو ان کے انداز گفتگو کو جن کی انہیں تربیت دی گئی تو کہا جائے گا کہ واہ کتنا تمیزدار بچہ ہے۔ یہاں کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس معصوم حیدر نے جو المیے بیان کئے جو شاید شہری لوگوں کے اوپر سے گزر گئے اس وائرل ہونے والے بچے کا قصور یہ تھا کہ وہ شہر سے دور دراز ایک دیہات میں رہتا ہے۔
الزام یہ ہے کہ دیہاتی بچے کے کان میں مندری کیوں ہے۔ اس پر بھی اعتراضات آ گئے اور جب یہی شہری بچے کانوں میں بالیاں ڈالتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ واہ کیا ورسٹائل انداز ہے۔ ارے ہمارا بچہ تو ماڈل ہے۔ یہ ہے وہ معاشرتی تقسیم جس نے نسلوں کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔
اور آخری بات…!
حیدر کی تمام باتوں سے ہٹ کر اس کی صرف ایک بات کو کہ ’’گائوں میری جنت ہے‘‘ یار میرے ایک دیہاتی بچے کی زبان سے نکلے یہ فقرے جو ابھی پریپ میں پڑھتا ہے۔ وہ کتنی بڑی بات کر گیا اور ہمارے شہری بچوں کو تو یہ بھی علم نہیں کہ وہ جس پاکستان میں رہ رہے ہیں اس کو بنانے والے کون تھے، کیا کسی شہری بچے نے یہ کہا ہے کہ ’’پاکستان میری جنت ہے۔‘‘کم از کم میں نے نہیں سنا۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.