دیکھا گیا ہے کہ عید الاضحی کے قریب آتے ہی ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق جانور کی تلاش میں ہوتا ہے۔ مگر جانور ہم خود کیوں نہیں پال سکتے، اس کے فوائد و نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ آج کل کے دور میں انسان ڈپریشن کا شکار ہے مگر قدرت کے قریب رہ کر انسان ڈپریشن سے بھی نجات حاصل کر سکتا ہے اور ساتھ ہی معاشی طور پر بھی خود کو مستحکم کر سکتا ہے۔ بہت سے لوگ مختلف رنگ برنگے پرندے پالتے ہیں جن کے رنگ اور آواز سکون کا باعث ہوتی ہے تو کچھ لوگ مختلف جانور جیسا کہ ہرن یا شیر بھی پالتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک پیشہ جسے پیغمبرانہ پیشہ بھی کہا جاتا ہے بکریاں پالنا ہے۔ اکثر افراد ریٹائرمنٹ کے بعد اس طرف راغب ہوتے ہیں۔
کھلی چراگاہوں میں جانوروں کو پالنا کافی فائدہ مند ہے مگر اربنائزیشن اور انڈسٹریلائزیشن کی وجہ سے کھلی چراگاہوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مگر اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ بکری کے کل وزن کا 10 فیصد اسکی بڑھوتری کے لیے ضروری ہے۔ اگر اتنا چارہ ہم جانور کو فراہم کر سکیں تو ان ڈور فارمنگ ممکن ہے۔ چارہ کے ساتھ ونڈہ کا استعمال کل وزن کا 2 فیصد خوراک میں جانور کی قوت مدافعت کو بھی بہتر کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ 24 گھنٹے پانی کی فراہمی بھی نہایت اہم ہے۔ اگر بھیڑ بکریوں کے کاشت کاروں کی پسند کو دیکھا جائے تو ایک دور میں کسان بھیڑوں کو پالنا پسند کرتا تھا مگر سنتھیٹک اون کے استعمال میں اضافے سے ان کی کاشت میں کمی ہوئی ہے کیونکہ اب اون کے بجائے بھیڑوں کو صرف گوشت کے لیے پالا جاتا ہے۔ اب انہیں اون اتارنے کے لیے بھی پیسے دینا پڑتے ہیں اور اون نہ اتارنے پر جانور کی نہ صرف بڑھوتری متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ بیمار یا ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
اگر بکریوں کو پالنے کے لیے نسل کے انتخاب کی بات کی جائے تو بیتل اور دائرہ دین پناہ کو غریب کی گائے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دودھ کے حوالے سے مشہور ہیں اسی طرح بکری کا کاروبار کرنے والے لائل پوری کالے رنگ کی سفید دھبوں والی، بیتل چینی اور دائرہ دین پناہ کی بکری کو پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک سال میں دو دفعہ بچے دیتی ہیں۔ اسی طرح ناچی نسل کو گوشت حاصل کرنے کے لیے پالا جاتا ہے جبکہ زیادہ بچہ دینے کے لیے ٹیڈی نسل بھی مشہور ہے جو نہ صرف سال میں دو دفعہ بچہ دیتی ہے بلکہ ایک وقت میں پانچ بچے بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ایک اور بکری کی نسل راجن پوری یا محمد پوری بکری ہے جو سفید رنگ کی خوبصورت ہونے کے ساتھ 35-40 کلو وزن کی ہوتی ہے اس نسل کو قربانی کے لیے بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ ان جانوروں کی دستیابی کی بات کی جائے تو ہر علاقے میں مویشی خرید و فروخت کیے جاتے ہیں اور ہر نسل کا جانور تقریباً ہر منڈی میں دستیاب ہے۔ مگر خریدتے ہوئے اس بات کی تصدیق ضروری ہے کہ جانور کو ویکسین لگائی گئی ہے کیونکہ اگر جانور کیرئیر ہے تو وہ پہلے سے موجود جانوروں کو بھی بیمار کر سکتا ہے اور بعض اوقات انسانوں میں بھی بیماری منتقل کرنے کا باعث بنتا ہے جسکی ایک مثال کانگو فیور وائرس ہے۔ وبائی بیماریوں میں پی آر پی اور پلورونمونیا کافی نمایاں ہیں ان بیماریوں کی ویکسین ٹائم پر نہ ہونے پر 90 فیصد جانور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پی آر پی کی وجہ سے پاکستان کا گوشت ایکسپورٹ بھی نہیں ہو پاتا۔ اس بیماری کو کنٹرول کرنا نہایت اہم ہے اسکے کنٹرول کے لیے بہاولپور کے علاقے کو بیماری سے پاک زون بنانے پر کام ہو رہا ہے۔ اسکے کنٹرول کے لیے صرف زندگی میں ایک بار ویکسین لگانا ضروری ہے اور وٹرنری ڈیپارٹمنٹ مفت ویکسینیشن کرتا ہے۔
انتڑیوں کے زہر کی بیماری بھی خطرناک ہے اس میں قبض کی سی صورتحال ہوتی ہے اور 24 گھنٹے میں جانور مر جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں پتہ بڑا ہو جاتا ہے اسلئے اسے پتے کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔ باڑے کی دیوار اور فرش پر سوراخ یا دراڑ ہوں تو وہاں چیچڑ چھپ جاتے ہیں جو نہ صرف جانور کا خون پی کر اسکی گروتھ متاثر کرتے ہیں بلکہ مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بھی ہیں۔ باڑے کا کھلا حصہ سورج کی سمت ہونا چاہئے تا کہ جگہ خشک رہے اور صفائی کے بعد چونے کی ڈسٹنگ کر دینے سے بیماریوں کے جراثیم مر جائیں گے۔ جدید طریقے اپناتے ہوئے اگر مویشی پالے جائیں تو ان کی پیداوار، قوت مدافعت اور صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف کسان معاشی طور پر مستحکم ہوں گے بلکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھی مانگ بڑھنے سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.