فیک ویڈیو اور اصطلاح طلب پہلو

92

کچھ دنوں سے صوبائی وزیر اطلاعات محترمہ عظمیٰ بخاری صاحبہ کے حوالے سے ایک فیک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ ویڈیو ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ جن لوگوں نے اس ویڈیو اپ لوڈ کیا اور ایک خاتون کی زندگی کو اجیرن کیا ان کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں آنی چاہیے۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ مگر خواتین کی عزت و تکریم اسلامی اقدار اور مشرقی روایات کی پامالی برداشت نہیں کی جانی چاہیے۔ پاکستانی معاشرہ پچھلے دو سالوں میں بہت سارے حوالوں سے پوری دنیا کے سامنے مذاق بناہوا ہے۔ ن لیگ کی سیاسی حریف جماعت پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے عظمیٰ بخاری صاحبہ کے حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیو کی بڑے واشگاف الفاظ میں مذمت کی ہے۔ میں اس پر محترم خرم نواز گنڈاپور صاحب کو مبارکباد دوں گا کہ انہوں نے سیاسی مخالفت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تکریم نسواں کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کیا۔ انہوں نے بہت ہی خوبصورت انداز کے ساتھ کہا کہ خواتین کو گندی سیاست کا ایندھن نہ بنایا جائے۔ خواتین کو سیاست میں گھسیٹنا شریفانہ طرز سیاست نہیں ہے۔ سیاست کی حدود و قیود ہیں۔ آپ اپنے مخالف کے لئے اپنی مخالفانہ رائے کا ضرور اظہار کریں مگر جہاں بنیادی انسانی حقوق، اخلاقیات اور چادر اور چار دیواری آتی ہے وہاں مخالفت کے منہ زور گھوڑے کی لگامیں کھینچ لینی چاہئیں، دشمن کی بیٹی کا احترام بھی ہماری دینی، سماجی روایات کا حصہ ہے۔ قانون ملک اور معاشرے اخلاقی اقدار کے ساتھ پھلتے، پھولتے اور پنپتے ہیں۔ خواتین کی تضحیک کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی، ثقافتی، مذہبی روایات کا شیرازہ بکھیرنے والوں کے ہاتھ توڑنے کا وقت آگیا ہے۔ اس گھٹیا فعل میں ملوث کوئی بھی شخص کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اس کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہیے۔

ہم کچھ عرصے سے دیکھ رہے ہیں مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے، مخرب الاخلاق ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور پھر ان ویڈیوز کو بلیک میلنگ اور گھٹیا مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، یہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہاں ایک اور مسئلہ کی نشاندہی ضروری ہے جس کا موجودہ حکمران طبقہ کو خیال رکھنا چاہیے۔ کوئی بھی معاملہ ہوتا ہے تو وہ اس کا ملبہ اپنے سیاسی مخالفین پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ہر فرد کے انفرادی جرم کے تانے بانے مخالف سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کے ساتھ جوڑتے ہیں، اس جوڑ توڑ میں مجرم اور اس کا جرم پس منظرمیں چلا جاتا ہے حالانکہ کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جو من حیث الجموع مجرمانہ اقدامات کو اپنی جماعت کی سیاسی پالیسی بنائے مگر بدقسمتی سے مخالف سیاسی جماعتوں کو بغیر ثبوت کے معتوب کیا جاتا ہے۔ آج کل تو انتقامی رویے اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں اس سے پہلے منتقم کارروائیوں میں خواتین، بچوں اور گھروں کو استثنیٰ حاصل تھا آج کل یہ استثنیٰ ختم شد ہے جو کہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ کسی فرد کے انفرادی جرم کو اْسی تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ جب مجرموں کو ان کے جرائم کی قرار واقعی سزا ملے گی تو مجرمانہ ذہنیت کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ محترمہ عظمیٰ بخاری سے جڑے ہوئے تضحیک آمیز واقعے کے تناظر میں دومعاملات پر بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلا یہ کہ عظمیٰ بخاری صاحبہ اپنا معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پاس لے کر گئیں۔ انہوں نے بلاتاخیر ان کی درخواست کو سنا اور اس پر فوری ایکشن لیتے ہوئے ایف آئی اے کو سارے معاملے کی چھان بین کرنے کی ہدایت کی اور محترمہ عظمیٰ بخاری کے دکھ درد کا ازالہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ چیف جسٹس صاحبہ  نے درخواست نمٹانے کی بجائے اسے ہولڈ رکھا کہ اگر ایف آئی اے بروقت کارروائی نہیں کرتی تو محترمہ عظمیٰ بخاری صاحبہ دوبارہ عدالت سے رجوع کریں۔ یہ بڑا خصوصی اور شفقت والا قانونی ریلیف ہے۔ ہر آدمی کو اس طرح فوری ریلیف نہیں ملتا جیسا صوبائی وزیر اطلاعات صاحبہ کو ملا، انہیں اس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا مشکور ہونا چاہیے تھا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انہوں نے شکریہ ادا کرنے کی بجائے عدالت کے پورے ادارے کو کٹہرے میں کھڑا کر دیااور طنز کی انتہا کر دی کہ سب کے لئے انصاف ہے صرف ہمارے لئے نہیں ہے۔ محترمہ عظمیٰ بخاری صاحبہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، ان کے ساتھ پیش آنے والا قابل مذمت واقعہ ایک طرف مگر ہر معاملے میں عدلیہ پر انگلی اٹھانا، اس پر انصاف نہ کرنے کی تہمت لگانا صرف عدلیہ کی ہی توہین نہیں ہے صوبہ کے 11 کروڑ عوام کی بھی توہین ہے۔ یہ عدلیہ کمزور کی امید ہے۔ صاحب اختیاراور صاحب حیثیت لوگوں کو عدلیہ کے ادارے کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں لاکھوں لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کے ساتھ بہت ظلم ہوتا ہے مگر ان کی کوئی آواز تک نہیں سنتا ان کی کئی کئی ہفتے ایف آئی آرز درج نہیں ہوتیں، کئی کئی مہینے اور کئی کئی سال ان کی درخواستیں سماعت کے لئے مقرر نہیں ہوتیں۔ لوگ دہائیوں تک انصاف کے لئے مارے مارے پھرتے رہتے ہیں مگر وہ لوگ صبر شکر کر کے انصاف مانگتے رہتے ہیں، عدلیہ کے بارے میں کوئی توہین آمیز رویہ اختیار نہیں کرتے،دوسرا واقعہ بھی اسی واقعے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ وزیر مملکت محترمہ شزافاطمہ نے ن لیگ کی دیگر خواتین کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ یہ پریس کانفرنس لائیو نشرہوئی انہوں نے بھی پوری کوشش کی کہ اس واقعہ کا ذمہ دار مخالف سیاسی جماعت کے بانی اور پوری جماعت کو ٹھہرایا جائے، یہ پریس کانفرنس محترمہ عظمیٰ بخاری صاحبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی سے زیادہ مخالف سیاسی جماعت کا بندوبست کرنے سے متعلق تھی۔ میں باردگر کہوں گا کہ ایسی ویڈیوز قابل مذمت ہیں ان کا سخت سے راستہ روکنا چاہیے لیکن اسے واقعات کو سیاسی حربے کے طور پر بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ تفتیش ہوئی نہیں اور فیصلہ پہلے جاری کر دیا گیاجرم کو جرم کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے۔ موجودہ حکومت تحریک انصاف کو بین کرنے کا اعلان کر چکی ہے اگر وہ اس واقعے کو پوری جماعت کے ساتھ جوڑیں گے تو یہی سمجھا جائے گا انتقامی سوچ ہے اور محترمہ عظمیٰ بخاری صاحبہ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ پس منظر میں چلا جائے گا جبکہ اس قبیح حرکت کے مرتکب کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔ محترمہ شزہ فاطمہ نے ایک اور بات کی کہ سیاست میں بداخلاقی اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے کے کلچر کی بنیاد پی ٹی آئی نے رکھی،چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی کے واقعات میں 1988ء کے بعد شدت آئی۔ سیاست کے طالب علم جانتے ہیں محترمہ بے نظیر بھٹو، محترمہ نصرت بھٹو، عمران خان، حافظ حسین احمد، بلاول بھٹو زرداری صاحب، نوید قمر، سلمان تاثیر (مرحوم) کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ محترمہ شزہ فاطمہ صاحبہ اگر ہم چادر اور چار دیواوری کی پامالی کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں گے تو تاریخ ہمیں کچھ اور حقائق دکھائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ گندی سیاست کو خیر باد کہا جائے، سیاست کیسے کرنی ہے اور سیاسی مخالفین سے کیسے نمٹنا ہے اس کے نئے رولز بنا لئے جائیں ورنہ دنیا ہم پر ہنستی رہے گی۔

تبصرے بند ہیں.