آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کیوں

43

آج کل میڈیا، پارلیمنٹ اور عام لوگوں کی بحث میں ’آپریشن عزم استحکام‘ کے بہت چرچے ہیں۔حکومت اس کے حق میں اور اپوزیشن سمیت کئی سیاسی پارٹیاں اس کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز تو وفاقی کا بینہ نے بھی اس مجوزہ آپریشن کی منظوری بھی دے دی ہے۔مطلب اب جو مرضی جتنی مرضی مخالفت کرے اس معاملہ نے تو آگے ہی چلنا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے مختلف اپوزیشن اوردیگر سیاسی جماعتوں کے ردعمل کے جواب میں واضح کیا ہے کہ کسی بھی ایسے بڑے پیمانے کے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا کہ وہاں کی آبادی کو بے گھر کرنے کی ضرورت پڑے۔

ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اعلان کردہ استحکام کے لیے عزمِ کے نام کو غلط طور پر غلط سمجھا جا رہا ہے۔’ماضی میں کئے گئے آپریشن دہشت گردوں کو ان مقامات سے ہٹانے کے لیے کئے گئے تھے، جو کہ نو گو ایریا بن چکے تھے اور وہ ریاست کی رٹ کے لیے ایک چیلنج تھے لیکن مجوزہ آپریشن کے لیے اس قسم کے کسی بھی انتظام کی ضرورت نہیں‘۔انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس وقت ملک میں کہیں بھی نو گو ایریاز نہیں ہیں کیونکہ دہشت گرد وں کی پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر منظم کارروائیاں کرنے کی صلاحیت ختم کی جا چکی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ایف)، جماعت اسلامی (جے آئی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) اور پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) یا اس جماعت کو جو بھی نام دیا جائے مجوزہ آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔اس سلسلہ میں بعض سیاسی راہنماوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اس آپریشن کا مقصد صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کا خون بہانا ہے اور وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اس قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔ گویا عوام سے صرف ان کا ہی تعلق ہے اور حکومت یا پاک فوج کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں۔

مذکورہ سیاسی پارٹیوں کے تحفطات اور خدشات اپنی جگہ لیکن یہ کالم تحریر کیے جانے کے وقت تک کی صوتحال یہ ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے خدوخال اور اس کی حدود و قیود کے بارے میں کسی کو بھی کوئی واضح معلومات نہیں ہیں۔اور ہمارے یہ سیاسی راہنما محض مفروضوں اور اندازوں کی بنیاد پر بیانات جاری کر رہے ہیں اور خدشات کا شکار ہیں۔

آپریشن عزم استحکام سے باقی پارٹیوں کے اختلاف کی بنیاد کیا ہے اس کا تو کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا لیکن کسی قابل اعتماد ذریعے کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق چونکہ پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل یا اس جماعت کاجو بھی نام ہے اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو اپنا دشمن نمبر ون اور وفاقی حکومت کو اپنا دشمن نمبر ٹو خیال کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی بات کرنا چاہتی ہے اور انہیں کی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار ہے، لہٰذا پی ٹی آئی کی قیادت کوخدشہ ہے کہ اس آپریشن کی آڑ میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت کے لیے مسائل نہ پیدا کر دیئے جائیں یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اسی چکر میں ان کی حکومت کی چھٹی ہی کرا دی جائے۔ اگرچہ وفاقی حکومت اس سلسلہ میں کافی وضاحتیں پیش کر رہی ہے اور یقین دہانیاں بھی کرا رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت کا کہنا ہے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی واضح یقین دہانی پیش نہیں کی جاتی وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے۔
ویسے توبات صرف پاکستان کی ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا منصوبہ بناتی ہیں تو اسے قومی سلامتی اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اہم اور ناگزیر ہی قرار دیتی ہیں۔اوریہ موقف اپناتی ہیں کہ فوجی آپریشن کے ذریعے ہی دہشت گردی کے خطرات سے نمٹا جا سکتا ہے اور ملک کو انتہاپسند گروپوں کی طرف سے لاحق خطرات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے موقف کو انٹیلی جنس رپورٹس وغیرہ اور دیگر ذرائع سے تقویت بھی فراہم کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ فوجی آپریشن کو انسداد دہشت گردی کی ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کا مقصد انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہوتاہے۔ اور حکومتیں یہ موقف اپناتی ہیں کہ ان کارروائیوں سے ملک میں طویل مدتی امن اور استحکام قائم ہو گا اور عوام ایک زیاہ محفوظ اور بے فکر زندگی گزار سکیں گے۔

اس قسم کے آپریشن کی مخالفت میں دلائل بھی روائتی انداز میں ہی دیے جاتے ہیں مثلاً آرمی آپریشن کے دوران شہری ہلاکتوں کے خطرات، طاقت کے غیر متناسب استعمال یا اجتماعی نقصان وغیرہ۔آرمی آپریشن کی مخالفت کرنے والے اس قسم کے آپریشن کی صورت میں زیادہ احتیاط اپنانے اور ٹارگٹڈ ایکشن اختیار کرنے کی دلیل تو دیتے ہیں لیکن وہ اس قسم کے طریقے بتانے سے قاصر رہتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ ا پنی بتائی ہوئی حکمت عملی اپنانے کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

پاکستان کی طرح آرمی آپریشن کا سامنا کرنے والے ممالک کی اپوزیشن جماعتیں بھی اگر دلائل سے اپنے موقف کو تقویت نہ بخش سکیں تو مختلف قسم کی الزام تراشی شروع کر دیتی ہیں مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت فوجی آپریشن کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرے گی اور فوج اور عوام کو آمنے سامنے کھڑا کر دے گی، یا پھر الزام لگا دیا جاتا ہے کہ اس آپریشن کا اصل مقصد ملکی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

کسی بھی مسئلہ پر مخالفت اگر منطق اور دلیل کے ساتھ کی جائے تو ہی مناسب رہتا ہے لہٰذا آپریشن عزم استحکام کی مخالفت میں ڈٹ جانے والی اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے تو اس آپریشن کی مکمل تفصیلات اور پروٹوکولز کے متعلق مکمل آگاہی حاصل کریں اور پھر ایک منطقی پوزیشن اپناتے ہوئے مجوزہ آپریشن میں زیادہ شفافیت، جوابدہی اور قانونی فریم ورک کی پابندی کی تجاویز دیں یقینا یہ ایک زیادہ موزوں اور جمہوری طریقہ ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.