عید قرباں کا پیغام

38

بڑی عید کا دن بڑی خوشیاں لاتا ہے کہ اس روز پروردگارِ عالم کی خوشنودی اور اس کا کرم حاصل کرنے کے لیے جانوروں کی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں، ذائقے دار کھانے پکتے ہیں دوستوں رشتے داروں کی محفلیں جمتی ہیں دعوتیں اڑائی جاتی ہیں اور خوش گپیاں کی جاتی ہیں لیکن عید محض خوشی منانے اور ہلا گلا کرنے کا نام نہیں یہ دن ہمیں سنجیدہ سوچ بچار اور غور و فکر کی دعوت بھی دیتا ہے۔
عید کا ہم مسلمانوں کے لیے خصوصاً پاکستانیوں کے لیے پیغام کیا ہے؟ پیغام یہی ہے کہ اتفاق الفت بردباری تحمل اور برداشت کا راستہ اختیار کیا جائے، عوام حکومت پر یقین رکھیں اور حکومت عوام کے ریلیف کے لیے کام کرے۔ حال ہی میں حکومت نے اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کیا، اس بجٹ میں تنخواہوں اور پنشنز میں جس شرح سے اضافہ کیا گیا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ نامساعد معاشی حالات کے باوجود سرکاری ملازمین کو ریلیف دینے کی کچھ کوشش کی گئی ہے لیکن معاملہ اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے والا ہو گیا ہے کہ ایک طرف حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے انہیں ریلیف دیا ہے اور دوسری طرف ان کی آمدنیوں پر ٹیکس بھی بڑھا دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی جیب میں ایک ہاتھ سے کچھ پیسے ڈالے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے وہی پیسے نکال بھی لیے ہیں۔ عوام کو ریلیف ملے اور ملک کے سیاسی حالات ٹھیک ہو جائیں تو ترقی کی منزل کی جانب سفر ایک بار پھر شروع ہو جائے گا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قربانی کی عید پر صرف جانوروں کی قربانی نہ کی جائے بلکہ یہ اپنے دشمنوں سے دشمنی اور اپنوں سے محاذ آرائی کو بھی قربان کر دیا جائے کہ یہی اس عید کا پیغام ہے۔
ملک میں گرمی اور مہنگائی نے عوام کے کڑاکے نکال دئے ہیں، مہنگائی کے طوفان نے غریب اور متوسط طبقے کی زندگی اجیرن بنادی ہے، وہ کیسے عید منا رہے ہیں؟ ماضی میں سفید پوش کہلانے والے اب غریبوں کی صف میں شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ مہنگائی کی کچھ حقیقی وجوہ بھی ہیں مگر زیادہ تر مہنگائی مصنوعی اور متعلقہ حکومتی اداروں کا ٹھنڈے پیٹ صورتحال کو برداشت کرنا ہے، اگر صرف پرائس کنٹرول کمیٹیاں متحرک اور فعال ہو جائیں تو ماہ مقدس اور عید کے موقع پر گرانفروشوں کو نکیل ڈالی جاسکتی تھی۔ انہی کالموں میں پہلے بھی نشاندہی کی جاچکی ہے کہ پوری دنیا میں مذہبی اور سماجی تہواروں کے موقع پر تاجر برادری ا زخود قیمتوں میں کمی کرکے غریب خریداروں کو سہولت فراہم اور خوشیاں سمیٹنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، مگر کس قدر شرم کا مقام ہے کہ اسلامی ملک پاکستان میں ان مقدس ایام میں مصنوعی مہنگائی کرکے غریب شہریوں سے خوشیاں چھین لی جاتی ہیں۔
روز روز توانائی مہنگی ہونے سے قیمتیں متاثر ہوتی ہیں،مگر قیمت میں اضافہ کی اجازت حکومت کی طرف سے دی جانی چاہیے اور حکومت نے تاحال ایسا کوئی اقدام نہیں کیا، مہنگائی کی ایک بڑی وجہ حکومت کا کنٹرول نہ ہونا ہے اور اس کی بڑی وجہ ملک میں کاسٹ اینڈ مینجمنٹ کو اہمیت نہ دینا ہے جبکہ اکاؤنٹس کا یہ شعبہ دنیا بھر میں صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے‘ یہی شعبہ ہر قسم کی مصنوعات حتیٰ کہ زرعی اجناس کی لاگت‘ منافع اور فریٹ کو سامنے رکھ کر قیمت کا تعین کرتا ہے، ڈیلر، تھوک فروش، پرچون فروش کا منافع بھی یہی شعبہ طے کرتا ہے اس کے بعد حکومتی مشینری مقررہ قیمت پر اشیا کی خرید و فروخت کو یقینی بناتی ہے‘ آج پرچون فروشی بھی دنیا بھر میں صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں پرچون فروشوں کو قابو کرنے کیلئے کوئی قانون ہے نہ محکمہ،عام شکایات کے بعد مجسٹریٹ چھاپے مارتے ہیں اور غریب دکانداروں کو جرمانے کرکے سمجھا جاتا ہے حق ادا کر دیا گیا۔ اصل ضرورت مہنگائی کی بنیادی وجہ تلاش کرنا ہے اور کارروائی ایسے عناصر کے خلاف کرنے کی ضرورت ہے جو مہنگائی کرنے کے ذمہ دار ہیں، بنیاد کو چھیڑے بغیر مہنگائی پر قابو پانا ممکن نہیں، کوئی تو وجہ ہو گی کہ پہلے جن اشیاء کا نرخ قابل قبول ہوتا ہے وہ عید سے چند روز قبل آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں،اصل ضرورت اس کی وجہ کو تلاش کرنے کی ہے ورنہ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں ہے۔
فرمان نبویؐ ہے ”جس نے منافع کی غرض سے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں“ ”ملاوٹ کرنے والے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں“ ”جس نے جھوٹ بول کر اپنا ناقص مال فروخت کیا اس نے جہنم خریدی“ مگر ہم بحیثیت مجموعی اسلامی تعلیمات کو فراموش کرکے ذاتی مفادات کیلئے ہر وہ کام کئے جاتے ہیں جو اخلاقی،قانونی اور مذہبی حوالے سے جرم ہے،اس پر متعلقہ حکومتی اداروں کی بے حسی اور خاموشی نے صورتحال کو بدترین بنا دیا ہے۔ متعدد بار نشاندہی کی گئی ہے کہ جدید تعلیم کی ڈگریوں کے ساتھ شہریوں کو اخلاقی تعلیم کی بھی اشد ضرورت ہے جب تک قوم،خاص طور پر نئی نسل کو اخلاقیات سکھانے کی کوشش نہیں کی جاتی تب تک ہم چوبیس کروڑ سے زیادہ عوام ایک قوم نہیں بن پائیں گے۔
فرمان نبویؐ ہے کہ ”ہر انسان کے اندر ایک شیطان ہوتا ہے“ اس شیطان کو نفس کہتے ہیں اورنفسانی خواہش ہر انسان کو زیادہ سے زیادہ کمانے پر مجبور کرتی ہے،اصل ضرورت نفس کے اس شیطان کو قابو کرنے کی ہے اس کے لئے قرآن و حدیث کی تعلیم، سیرت طیبہ کو عام کرنے اور احکامات نبوی سے نئی نسل کو روشناس کرانے کی ضرورت ہے، اس اخلاقی تعلیم اور تعمیر کردار کی وجہ سے امریکہ، یورپ، کینیڈا کے معاشرے جھوٹ،دھوکہ دہی، عہد کی خلاف ورزی سے بڑی حد تک پاک ہیں،انسانی ہمدردی کے حوالے سے ان ممالک کے شہریوں میں احساس زندہ اور شعور پختہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں مذہبی اور سماجی تہواروں پر اشیاء کی قیمت میں مصنوعی اضافہ کرنے کی بجائے تاجر قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں اور اس حوالے سے ان پر حکومتی دباؤ بھی نہیں ہوتا۔ صرف اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو خوشی کے مواقع پر خوشیاں بٹورنے کا موقع نہیں دیاجاتا بلکہ دیگر مذاہب سے متعلق لوگوں کو بھی تہواروں کے موقع پر ریلیف فراہم کیا جاتا ہے، عید کے موقع پر بھی امریکی، یورپی،کینیڈین تاجروں نے 30سے 75فیصد تک حلال اشیاء اور کپڑوں، جوتوں کی قیمت میں ازخود کمی کا اعلان کیا، یہ سب انسانی ہمدردی اور احساس کے باعث ممکن ہو سکا اور اس صورتحال میں بڑاکردار ان کی اخلاقی تربیت کا بھی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا تاجر طبقہ بھی غریب شہریوں کو مذہبی،سماجی اور قومی تہواروں پر خوشیاں سمیٹنے کا موقع دے اور مصنوعی مہنگائی کرنے کے بجائے باہمی رضامندی سے اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرکے غریبوں کو ریلیف دے ورنہ ہم کبھی خوشی کے مواقع پر بھی یکجا نہ ہو سکیں گے،عید کے مواقع پر اسلام نے بھی غریبوں، مسکینوں، یتیموں، ناداروں کو خوشی و مسرت میں شریک کرنے کا حکم دیا ہے،اس حکم پر عمل کرکے ہم کروڑوں مسلمانوں کو خوشیاں دے سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.