مذاکرات کی بھیک، یو ٹرن، وفاقی بجٹ

26

بات چل نکلی ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے، بسا اوقات لگتا ہے ہم پچھلی کئی دہائیوں سے دائروں میں سفر کر رہے ہیں، سختی کا نیا راؤنڈ شروع ہو گیا یا ہونے والا ہے۔ حالات اچھے نہیں ہیں، منافقت، دوغلا پن، دو نمبر، سیاست پر تینوں برائیوں کا غلبہ، سیاستدان مجموعہ صفات یا اغلاط، طاقتوروں اور سہولتکاروں میں پیچ پڑ گئے بوکاٹا کی صدائیں، دھڑا دھڑ فیصلے ادھر ریفرنسز تیار، طاقتور ڈھیل دے کر ڈور کھینچنے کا گر جانتے ہیں۔ فرد واحد پورے نظام کی تباہی کے درپے، حبیب جالب نے کہا تھا۔ ”اٹھا رہا ہے جو فتنے میری زمینوں پر، وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں“ کپتان کو ان کے اپنے رویوں نے سیاسی تنہائی کا شکار کر دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اعتبار، اعتماد سیاست کی اولین شرط خان دونوں صفات سے محروم، ان کے کزن حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں۔ ”خان کی بد قسمتی کہ اتنی بڑی اور مضبوط سیاست کی موجودگی، کوچہئ سیاست سے نابلد، سیاسی حکمت عملی اور تدبر سے خالی، بلا شبہ دلیری، لڑنے میں مہارت اور دروغ گوئی نے سیاسی نامہ اعمال حکمت عملی اور تدبر سے خالی ہو“ خان نے سارے راستے مسدود اور آنے والے حالات کا ادراک کرتے ہوئے بالآخر گھٹنے ٹیک دیئے جن کو چور ڈاکو کہتے 72، 73 سال کے ہو گئے، ان ہی سے مذاکرات کی بھیک پر مجبور، کشکول محمود اچکزئی کے ہاتھ میں دے دیا، نواز شریف اور زرداری سے مذاکرات کریں۔ مسلسل قید کے باعث مایوسی و نامرادی نے گھیر لیا۔ وقت ہاتھ سے نکل گیا۔ اب ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ ہیں، سیانے ایک عرصہ سے مشورہ دے رہے تھے کہ سیاست کے حقیقی کرداروں سے بات کر لیں، جیسے بھی ہیں آپ بھی تو دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ آپ کا مطمع نظر اقتدار، انوکھی خواہشات بقول شاعر ”ہر چیز توشہ خانے کی مل جائے خود بخود، میرے ہزار جرم ہوں لیکن سزا نہ ہو“ کپتان نے بات سمجھنے میں دیر کر دی، ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔ بد قسمتی بصیرت بصارت دونوں سے محروم، تحریک عدم اعتماد کے بعد سیاسی بصیرت اور حالات کے مشاہدے کے بصارت سے کام لیتے تو اب تک پھر اقتدار کے مزے لے رہے ہوتے، لیکن سیاسی بصیرت اقتدار کی غلام گردشوں میں کھو گئی۔ مقبولیت کے زعم نے بصارت سے محروم کر دیا۔ بات اب بھی نہیں بنی عالم خواب میں سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کا مشورہ مان کر بظاہر ان کے دلوں میں اپنے لیے رحم کے جذبات ابھارنے کی کوشش کی لیکن ”تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں“ سمجھ گئے کہ خان نے پینترا بدلا ہے۔ مذاکرات پر آمادگی کے پیچھے حالات جبر، مصلحت یا دھوکہ ہو سکتا ہے۔ ملاقاتیوں نے باہر آ کر سب کچھ بتا دیا کہ مذاکرات کا واحد مقصد خان کی رہائی ہے۔ تجزیہ کاروں نے فتوے صادر کر دیئے کہ کشکول خالی رہے گا، مذاکرات کی ناکامی کا پیشگی اعلان، حکومت کی جانب سے کورا جواب، مذاکرات ہماری مجبوری، ضرورت نہ خواہش، سیاسی استحکام کے لیے کوئی ایجنڈا ہے تو تحریری طور پر سامنے لائیں کوئی بھی بھلا مانس گارنٹی بھی دے، باہر موجود لیڈروں نے سارے مطالبات دہرانا شروع کر دیے۔ مینڈیٹ یعنی 180 سیٹیں واپس کرو، سانحہ 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن بنائیں، تمام لیڈروں کارکنوں کو رہا کریں، ادھر سے چٹا جواب، عمر ایوب نے اعلان جنگ کر دیا۔ نتیجہ نوشتہئ دیوار، مذاکرات سے پہلے ہی ناکامی کا اعلان رؤف حسن نے بھی دما دم مست قلندر کی دھمکی دی۔ خان کے ہوش و ہواس بحال ہوئے تو انہوں نے بھی فوراً یو ٹرن لیا کہا کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اب کیا کریں گے تحریک چلائیں گے؟ آٹھ کالیں بیکار ثابت ہوئیں۔ خیبر پختون خوا میں بھی مقبولیت دم توڑتی نظر آتی ہے۔ وہاں کے عوام علی امین گنڈا پور کی بڑھکوں سے تنگ ہیں۔ افغانوں اور طالبان پر تکیہ تھا۔ مگر تادم تحریر 6 لاکھ 7 ہزار 16 ہزار غیر قانونی افغان سرحد پار دھکیل دیئے گئے۔ پاک فوج دہشت گرد طالبان سے نمٹ رہی ہے۔ سٹریٹ پاور کی کمر ٹوٹ گئی۔ دھمکیاں کام آئیں نہ منت سماجت، مولانا فضل الرحمان کے تعاون سے تحریک کی امید بھی دم توڑ گئی، انہیں وزیر اعظم نے گلے لگا لیا۔ نواز شریف سے گلے مل گئے تو سارے گلے شکوے ختم، سہولت کاروں کے دھڑا دھڑ فیصلے بھی نئی زندگی کی نوید نہیں دے سکے۔ جیل مقدر، اداروں میں جنگ نے کئی محاذ کھول دیئے ہیں۔ لڑائی خطرناک مرحلہ میں داخل ہو گئی تاہم اس سے پی ٹی آئی اور اس کے بانی کو کیا فائدہ ہو گا۔ شیخ رشید کی عام معافی کی اپیل بھی اکارت گئی۔ بیروزگار شخص کی بات پر کون دھیان دے گا۔ شاہ محمود قریشی اسی لیے مایوس ہیں کسی واقف راز سے کہا کہانی ختم سمجھو ہم جیل میں ہی رہیں گے۔ سانحہ 9 مئی اور غداری کیسز سے چھٹکارا نہیں، مذاکرات قصہ پارینہ، رات گئی بات گئی۔
وفاقی وزیر خزانہ محمود اورنگزیب نے 2024-25ء کے وفاقی بجٹ کا اعلان کر دیا۔ خان کی ہدایت تھی کہ بجٹ پیش نہ ہونے دیا جائے مگر شور شرابے کے باوجود بجٹ کا اعلان ہو گیا۔ منظور بھی ہو جائے گا۔ لوگوں نے کہا عوامی بجٹ نہیں، آئی ایم ایف کا بجٹ ہے، اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ، 38 کھرب کے اضافی ٹیکس کوئی شعبہ نہ بچ سکا، سانس پہ ٹیکس آس پہ ٹیکس، بس نہیں چلا ورنہ بچوں کی پیدائش پر دس فیصد ٹیکس لگا دیتے۔ بچہ پیدا ہونے سے انکار کرتا تو باپ پر 15 فیصد ٹیکس عائد ہوتا، بصد شکر بچے آرام سے دنیا میں آ سکتے ہیں مگر ہر آنے والا بچہ ما شاء اللہ 2 لاکھ 16 ہزار ڈالر کا مقروض ہو گا۔ قرض ادا کر سکتا ہو تو دنیا میں تشریف لائے ورنہ عالم ارواح میں عیش کرے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ، کم سے کم اجرت 37 ہزار مگر 5 ٹیکس سلیب عائد، کمال ہے 37 ہزار تنخواہ والا بجلی گیس اور دیگر واجبات ادا کرے گا لیکن جس کی تنخواہ 25 لاکھ ماہانہ ہے اسے بجلی گیس پٹرول ٹیلیفون سب فری۔ ”تیتر پکارتے ہیں سبحان تیری قدرت، کوئی شعبہ نہ بچ سکا“ پٹرول دس روپے سستا، بجلی 5 روپے فی یونٹ مہنگی، ہر مہینے فیول چارجز کی وصولی بجلی اور گیس کے بلوں میں دیگر ٹیکسوں کی بھرمار، نجی اداروں کے ملازمین سال بھر بلوں کی ادائیگی اور مہنگائی کے ہاتھوں خود کشیاں کریں گے۔ مہنگائی پتا نہیں کب اور کیسے کم ہو گی۔ فی الحال عید الاضحی کے موقع پر 19 اشیاء مہنگی کر دی گئی ہیں۔ امید پر دنیا قائم، قرآنی حکم پر ایمان، ہر مشکل کے بعد آسانی، تاجر، سرمایہ کار، ہول سیلر اپنا ٹیکس قیمتیں بڑھا کر پورا کر لیں گے۔ عوام کہاں جائیں گے۔ کاش ایسا ممکن ہو سکے کہ کھرب پتی ارکان پارلیمنٹ اللہ کے دیئے بغیر حساب رزق اور مال میں سے ریاست کو ایک ایک ارب ڈالر کے برابر رقم دے کر خسارہ پورا کر دیں تا کہ آئی ایم ایف کی ضرورت نہ رہے۔ ایک مثبت پیشرفت، ملک میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ اضافہ تعداد 59 لاکھ ہو گئی، ان کی کھالوں سے زرمبادلہ حاصل ہو گا۔ گوشت غریبوں کے کام آئے گا۔ آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو حالات کیسے بدلیں گے؟

تبصرے بند ہیں.