ساٹھ ہزار انسانوں کی موت

30

اگراچانک پتہ چلے کہ کرہ ارض پر ایسی مسلم ریاست بھی ہے،کہ جس کے باسی2019 میں روزانہ کی بنیاد پر موت کے منہ میں جاتے رہے،انکی موت نہ توخانہ جنگی کی وجہ تھی، نہ ہی کوئی لسانی، قبائلی جھگڑا، کسی قسم کی وباء بھی نہ تھی، فرقہ وارانہ فسادات بھی اُس دور میں نہ تھے، نہ ہی سیلاب کا اسے سامنا تھا، حادثات میں روزانہ مرنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ تھی، انکے لئے عمر کی قید تھی نہ ہی صنف کی تقسیم ، المیہ یہ بھی کہ مرنے والے کسی گنوار، جاہل، ڈاکو، دہشت گرد کے ہاتھوں موت کے منہ میں نہیںجارہے تھے بلکہ وہ اپنے مسیحائوں کی گود میں ابدی نیند سوتے رہے۔توآپ کے دل پر کیا گذرے گی؟

برا ہو عالمی ادارہ صحت کا جس نے موقع پر توجہ نہ دلائی، سال میں 60 ہزارا نسان علاج معالجہ کے نام پر دنیا چھوڑ گئے، اعداد و شمار کی نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو ماہانہ یہ تعداد پانچ ہزار بنتی ہے اور یومیہ 160 سے زائد ہے، کسی مہذب ملک میں کثیر تعداد میں اموات ہوتیں تو ایک بھونچال آجاتا مگر یہاں راوی ہمیشہ سے چین ہی چین لکھتا آیا ہے شائد یہی اسکی مجبوری ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں اینٹی بائیوٹیک Resistence کی بابت ایک رپورٹ شائع کی اور بتایا کہ ٹائی فائیڈ، ڈائیریا، ٹی بی جیسی بیماریوں کا باعث بننے والے بیکٹیریا میں اینٹی بائیوٹیک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے کے نتیجہ میں دنیا بھر میں 13 لاکھ ان میں 60 ہزار ہم وطن ہیں، قلیل مدت میں جان کی بازی ہار گئے۔ادارہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ ادویات کے بے تحاشہ استعمال سے بیکٹیریا نے زیادہ طاقتورہوکرادویات کو غیر موثر کر دیا ہے۔

عالمی اور مقامی میڈیا کی چشم کشا رپورٹ پر اپنی دختر حرا خالد اصغر( فارماسسٹ )سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اینٹی بائیوٹیک کی پانچ جنریشن ہیں ہمارے ہاں ڈاکٹرز زیادہ تر تھرڈ،فورتھ جنریشن استعمال کرواتے ہیں، مریض تندرست ہو نہ ہومگر بکٹیریا زیادہ طاقت ور ہو جاتا ہے، ڈائیریا میں بھی ہمارے طبیب انٹی بائیو ٹیک دیتے ہیں سرے سے
اس کی ضرورت نہیں ہوتی، تیسرا ہر مریض کو بغیر کسی ٹسٹ کے اینٹی بائیوٹیک دی جاتی ہے ،از خود تشخیص کی بنیاد پرانواع و اقسام کی ادویات ڈاکٹرتھما دیتا ہے کمزور بیکٹیریا اس سے مزید طاقت ور ہوجاتا ہے، اسی طرح میڈیکل سٹورز کاونٹر پریکٹس میں جلد آرام کی بابت مریضوں کو اینٹی بائیو ٹیک دی جاتی ہے۔

غالب آبادی دیہات میں مقیم ہے، قریباً ہر دیہہ میں اتائی موجود اور کثرت سے اینٹی بائیو ٹک دوائی کا استعمال کرواتے ہیں،المیہ تو یہ ہے کہ کرونا کے عہد میں بھی متاثرہ افراد کو اینٹی بائیوٹیک دی جاتی رہی،حالانکہ یہ تو محض وائرل انفیکشن تھا،یہی معاملہ سرجری کا بھی ہے، چھوٹے شہروں،قصبات میں جونیئر ڈاکٹر سرجری کے مریض کو بھی غیر محفوظ ادویات کا استعمال کراتے ہیں،اینٹی بائیوٹیک کی وہ جنریشن مریض کو دی جاتی ہے جو فائدہ سے زیادہ نقصان دیتی ہے،اس طریقہ علاج سے بیکٹریا محض جرثومہ نہیں رہتا بلکہ ’’سپر بگ‘‘ بن جاتا ہے۔

عالمی سطح پر مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے گائیڈ لائین موجود ہے، ہمارے ہاں اس کی پیروی کو لازم ہی نہیں سمجھا جاتا،بیرون ملک ڈاکٹر، فارماسسٹ کے نسخہ کے بغیر دوائی مل ہی نہیں سکتی، ہمارے ہاں یہ پابندی موجود نہیں ہے،وہاں ڈاکٹرز، فارماسسٹ حتی کہ نرسنگ سٹاف پینل کی صورت میں دوائی تجویز کرتے ہیں، کیونکہ بہت سی ادویات ایسی ہیں جو آپ اکٹھی مریض کو نہیں دے سکتے پھر دو سے زائد ادویات کے دوران مناسب وقفہ ہونا لازم ہے، ورنہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں یہاں ڈاکٹر ز خود کو عقل کل سمجھتے ہیں، باہر کی دنیا میںادویات کے علاوہ غذا سے بھی علاج کیا جاتا ہے تاکہ امیون سسٹم بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرے۔

ہمارے ہاںبیماریوں کی بڑی وجہ جہالت اور غربت بھی ہے، صفائی کا ناقص نظام بیکٹیریا کو از خود جنم دیتا ہے، اسی طرح مہنگائی کی ماری عوام سستے علاج کو ترجیح دیتی اورنیم حکیم خطرہ جان کی صور حال سے نبرد آزماء ہوتی ہے۔

ملک کی بڑی جامعات میں فارمیسی کا شعبہ موجود ہے،ایسی طرح فوڈ اینڈ نیوٹریشن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے مگر اداروںسے فارغ التحصیل طلباء وطالبات پر مشتمل بے روزگاروں کی فوج ظفر موج نکالی جارہی ہے، مگر شفاخانوں میں تعینات نہیں کیا جاتا اسی کا ثمر ہے کہ ہزاروں افراد کے دنیا سے چلے جانے کی خبر رپورٹ کی شکل میں ملی ہے، یہ محض ہزاروںا فراد نہیں بلکہ خاندان تھے، یہ رپورٹ کسی مخالف ادارہ نے تیار اور شائع نہیں کی بلکہ عالمی ادارہ صحت کی ہے عالمی سطح پر صحت کا فروغ اور آگاہی دینا اس کے فرائض میں شامل ہے۔

ناقص اور زائد المیعاد ادویات کا استعمال ہمارے ہاں جس تواتر سے ہوتا ہے اسکی مثال نہیں ملتی،اسی طرح جعلی ادویات کی تیاری کا معاملہ بھی اب پوشیدہ نہیں رہا، حتیٰ کہ اینٹی بائیو ٹیک جیسی حسا س دوائی بھی دو نمبر طریقہ سے تیار کرکے مارکیٹ میں لانچ کردی جاتی ہے،فارما سیسٹکل کمپنیوں کے ڈاکٹر کو فراہم کردہ پیکج مریضوں سے ان کی دیرینہ اور والہانہ محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، یہی صورت حال لیبارٹیز کی بابت درپیش ہے ،خفیہ ہاتھ اتھارٹیز کو نظر کیوں نہیں آتے، میڈیا کی رپورٹس کی گواہ ہیں۔

نہیں معلوم سرکار مذکورہ رپورٹ پر سخت ایکشن لینے کے موڈ میں ہے بھی یانہیں، گمان ہے کہ مرنے والے عام شہری ہیں ،اگر ان کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہوتا تو اب تلک پارلیمنٹ میں اسکی باز گشت ضرورسنائی دیتی، کیا اس کا حشر بھی ہر رپورٹ جیساہوگا ،جس کا جائزہ لینے کے لئے ہمیشہ کمیٹی بنائی جاتی ہے۔

کیا یہ معاملہ انسانی حقوق کی حدود سے باہر ہے؟ زیادہ ذمہ داری تو محکمہ صحت اور ڈریپ کے ناتواں کندھوں پر ہے وہ اس رپورٹ کے حوالہ سے اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے لازمی رکھیں،میڈیسن مافیاز کی نگاہ سے یہ رپورٹ کیسے اوجھل ہو سکتی ہے،جو ادویات مہنگی کرنے پر ملکہ رکھتے اور مریضوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا فن جانتے ہیں۔

18ویں آئینی ترمیم کے بعد عوا م کی صحت کی ذمہ دار ہر صوبائی سرکار کے سر ہے، رپورٹ کے تناظر میں انھیں بھی اپنا جائزہ لینا ہوگا، شفا خانوں میں ادویات کی فراہمی سے زیادہ اہم بات مریض کے لئے درست دوائی کا استعمال بھی ہے،جو مستند ڈاکٹرز، فارماسسٹ کی تعیناتی کے بغیر ممکن ہی نہیں ، ایسا پینل تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں نرسنگ اور ماہر غذایات بھی شامل ہوں ساٹھ ہزار انسانوں کی ہلاکت کی ذمہ داری اخلاقی طور پرکس کو قبول کرنی چاہئے اہم سوال یہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.