ہمارے تو فنکار بھی ”نواب“ ہوتے ہیں

9

غالباً یہ اپریل 2011 کی سہہ پہر تھی میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں اسٹیج کے نامور فنکار مرتضیٰ حسن المعروف مستانہ کی تیمارداری کے لئے ان کے سرہانے کھڑا تھا۔ مستانہ کا اکلوتا صاحبزادہ کوئی چیز لینے کے لئے اپنے گھر گیا ہوا تھا۔ میرے سامنے ایک باریش بزرگ بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے تکلیف کی شدت ان کے چہرے پر نمایاں تھی۔ میں نے تیمارداری کے بعد تصویر بنانے کے لئے ان کی اجازت چاہی تو وہ یکدم اٹھ کر بیٹھ گئے اور ہاتھ باندھتے ہوئے گڑ گڑائے کہ میں اس قابل رحم حالت میں اپنی تصویر نہیں اترواؤں گا۔ میں نے ساری زندگی لوگوں کو ہنسایا ہے اپنی یہ حالت دکھا کر انہیں رلا نہیں سکتا۔ دوسری بات یہ کہ میں نے بہاولپور کی جس مٹی میں دفن ہونا ہے وہ مٹی بڑی انا پرست ہے میں اسے کیا منہ دکھاؤں گا کہ مرتے دم میں یہ تاثر چھوڑ آیا ہوں کہ لوگ مجھ پہ ترس کریں۔ میں نے تو فیصل آباد پولیس کے اپنے ساتھ روا رکھے گئے اس روئیے کو دل پہ لگا لیا کہ دوبارہ اسٹیج کا رخ نہ کیا۔ ان کی یہ بات سن کر نہ صرف میں نے تصویر بنانے کا ارادہ منسوخ کردیا بلکہ اس بات نے میرے رونگٹے کھڑے کردئیے اور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا۔ کیا مستانہ کی موت کی ذمہ دار فیصل آباد پولیس ہے یا وہ اپنی انا کے ہاتھوں موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

قارئین کرام ! مرتضیٰ حسن مستانہ کون تھے۔ ان کے حوالے سے مختصراً عرض کرتا چلوں۔ گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے مستانہ نے لڑکپن میں ہی اداکاری شروع کردی تھی وہ چار دہائی سے زائد عرصہ تک سٹیج اور ٹی وی پر فن کا جادو جگاتے رہے۔انھوں نے پنجابی اور اردو دونوں زبانوں کے ڈراموں میں کام کیا۔وہ پنجابی ڈراموں میں اتنی عمدگی سے مکالمہ بولتے کہ ان پر نسلاً پنجابی ہونے کا گماں ہوتا اور جب اردو مکالمے کی باری آتی تو لگتا کہ اردو ان کی مادری زبان ہے۔انھیں فی البدیہہ مکالمے کی ادائیگی کا استاد کہا جاتا ہے۔ ایک ڈرامے میں ایک جملہ ’تو مینوں سیریس نئیں لے ریا‘ (تو مجھے سنجیدگی سے نہیں لے رہا) اتنے شاندار انداز میں ادا کیا کہ لوگوں کے دل کو بھا گیا۔ بعد میں یہ جملہ انھوں نے بہت سے ڈراموں میں استعمال کیا۔ ان کا سب سے مشہور ڈراما ’کوٹھا‘ تھا۔ عطاء الحق قاسمی کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے میں ان کا ’مسٹر کیوں‘ کا کردار بھی عوام میں بے حد مقبول ہوا جو ہر معاشرتی برائی پرسوالیہ نشان اٹھاتا تھا۔
ان کی پیشہ وارانہ زندگی کا ایک اہم مگر افسوسناک واقعہ فیصل آباد کے ایک سٹیج ڈرامے پر پولیس کا چھاپہ تھا۔پولیس نے فحاشی کا الزام لگا کر سٹیج پر کام کر رہے تمام اداکاروں کو گرفتار کر لیا۔ مستانہ بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل تھے۔مستانہ نے پولیس کے اس سپاہی کو بتایا میں مستانہ ہوں اس نے کہا کون مستانہ ؟ چل اگے لگ ۔
مستانہ نے اپنے اور ساتھی فنکاروں کے ساتھ پولیس کے اس سلوک کا گہرا اثر لیا۔تھوڑے ہی عرصے میں وہ شدید بیمار ہوئے ٹیسٹ کروائے تو معلوم ہوا وہ ہیپا ٹائیٹس کے وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔یہ وائرس بعد میں جگر کے کینسر میں بدل گیا وہ مختلف سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرواتے رہے۔

22 مارچ کو ان کے اکلوتے بیٹے نے انھیں بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں داخل کرایا جو ان کی زندگی کا آخری ٹھکانہ ثابت ہوا۔

قارئین کرام! مستانہ بہاولپور میں پیدا نہیں ہوئے تھے لیکن انہوں نے بہاولپور کو خود پر طاری کرلیا تھا وہ سوچ کے ”نواب“ تھے وہ ”اوئے“ سننے کے عادی نہ تھے اور آپ جانتے ہی ہیں پنجاب پولیس کی گفتگو کا آغاز ہی ”اوئے“ سے ہوتا ہے یہ ”اوئے“ ہیرا کھا گئی۔

یہ تو ایک فنکار کی کہانی ہے جو بہاولپور کی مٹی اوڑھ کر سویا ہوا ہے۔ اسی دھرتی کے ایک نواب کے ساتھ بھی اسی سے ملتا جلتا واقعہ پیش آیا تھا انہوں نے بھی سرکاری و آئینی عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان پنجم کے صاحب زادے نواب عباس خان عباسی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں گورنر پنجاب تھے بھٹو مزاجاً بہت سخت منتظم تھے ایک دورے پر ان کے استقبال کے وقت نواب عباس خان عباسی کچھ تاخیر سے ائیر پورٹ پہنچے تو بھٹو سخت ناراض ہوئے اور نواب صاحب کو مخاطب کر کے بولے ”اوئے“ نواب تمھارا نوابی کا نشہ ابھی اترا نہیں۔ یہ بات نواب کے تن بدن میں آگ لگانے کے لئے کافی تھی نواب ادھر سے ہی پلٹے اور اپنے گھر چلے گئے بھٹو کو جب یہ احساس ہوا کہ کام خراب ہوگیا ہے تو وہ سیدھے نواب صاحب کے گھر پہنچے جب وہ وہاں پہنچے تو نواب صاحب اپنا استعفیٰ لکھ چکے تھے بھٹو کو ادھر ہی استعفی پیش کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے منت سماجت کی اور نواب صاحب کو استعفی واپس لینے پر رضا مند کرنے میں کامیاب رہے۔ یہاں ایک اور واقعہ ریکارڈ پر ہے کہ جب کھانے کی میز سجائی گئی تو جن برتنوں میں کھانا دیا گیا وہ بہت قیمتی تھے کچھ لوگ تو سونے چاندی کے برتن بھی کہتے ہیں بہر حال جو بھی ہے وہ تھے بہت قیمتی کہ بھٹو صاحب جاتے وقت وہ برتن بھی ساتھ لے گئے حالانکہ بھٹو بھی خاندانی نواب تھے لیکن وہ برتن ان کو اتنے بھائے کہ وہ انہیں ساتھ لے جانے پر مجبور ہوگئے۔

قارئین کرام ! یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں لیکن ان کا ”نتیجہ“ اخذ کریں تو یہی ہے کہ بہاولپور کی مٹی بہت انا پرست ہے وہ اپنی انا پر سمجھوتہ نہیں کرتی یہی وجہ ہے آپ کو بہاولپور کا کوئی بندہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا نہیں دکھائی دے گا۔

حکمرانوں کو بہاولپور کی اس ”خامی“ کا پتہ ہے اس لئے وہ بہاولپور سے اس کا حق چھیننے میں دیر نہیں کرتے چاہے وہ صوبائی حیثیت کی بحالی ہو یا سول سیکرٹریٹ کی تعمیر۔

تبصرے بند ہیں.