حکومت مخالف تحریک کے امکانات

40

عام طور پر جو بات سب سے آخر میں کی جاتی ہے وہ سب سے پہلے کر دیتے ہیں کہ فی الحال دور دور تک حکومت مخالف تو کیا کسی بھی قسم کی تحریک کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ جس قدر شدید بلکہ سنگین نوعیت کی گرمی پڑ رہی ہے تو حکومت پنجاب کی گندم نہ خریدنے، سولر پاور کی نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی، نان فائلرز کی سمیں بند کرنے جیسی حماقتوں کے باوجود بھی کسی تحریک کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تحریک نہ چلنے میں سخت گرمی ہی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ اس میں کئی اور وجوہات بھی ہیں۔ سوشل میڈیا پر زبردست قسم کے پروپیگنڈا کے بعد ہمیں نہیں معلوم عمران خان کی مقبولیت کی اصل حقیقت کیا ہے لیکن جو شواہد نظر آتے ہیں ان کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کبھی اکیلے تحریک چلانے کے قابل نہیں رہی اس لئے کہ عمران خان جس طرح کا آمرانہ مزاج رکھتے ہیں اس میں کسی کو اپنے ساتھ شریک کرنا اور پھر ان کے مشورے سننا اور ان پر عمل کرنا یہ ان کے مزاج میں شامل ہی نہیں ہے لیکن جب اور جہاں مجبوری آ جائے تو پھر جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں تا حیات توسیع دینے پر بھی رضا مند ہو جاتے ہیں۔خیر بات ہو رہی تھی کہ تحریک انصاف کبھی اکیلے تحریک چلانے کے قابل نہیں رہی اور یہی وجہ ہے کہ خود عمران خان کی قیادت میں 2022 میں دونوں لانگ مارچ ناکام رہے اور مایوس کن تعداد کی وجہ سے نومبر28 کو دھرنا بھی نہیں دیا جا سکا۔ پہلے لانگ مارچ میں تو حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور اس میں تحریک انصاف کہہ سکتی ہے کہ پولیس گردی کی وجہ سے ایسا ہوا لیکن دوسری مرتبہ تو وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی تھے اور کسی رکاوٹ کا کیا ذکر کہ پولیس ہر لمحہ ان کی حفاظت کے لئے موجود تھی لیکن اس کے باوجود بھی تحریک انصاف اپنے لئے مثبت نتائج حاصل نہیں کر سکی بلکہ دوسرا لانگ مارچ جو لبرٹی چوک لاہور سے عمران خان کی قیادت میں شروع ہوا تھاوہ تو بڑی مشکل سے شاہدرہ پہنچ سکا اور اس کے بعد یہ طریقہ اپنایا گیا کہ ہر روز اگلے شہر میں ایک جلسہ کر کے لانگ مارچ کا بھرم رکھنے کی کوشش کی گئی تاوقتیکہ وزیر آباد میں فائرنگ واقعہ کے بعد لانگ مارچ کو ختم کر دیا گیا۔
اب بھی الیکشن کے بعد درجن بھر احتجاج کی کالز ناکام ہو چکی ہیں۔ 2014 میں لاہور سے لانگ مارچ میں عمران خان کے ساتھ علامہ طاہر القادری تھے اور جب دھرنے دیئے گئے تو چند دنوں کے بعد یہ حالت ہو گئی تھی کہ پورا دن دھرنے کی جگہ خالی رہتی تھی اور شام کو چند سو کارکن جمع ہوتے تھے اور یہ بات میڈیا پر کہی جا چکی ہے کہ میڈیا کو ان چند سو کارکنوں کو ہزاروں کی تعداد میں دکھانے کا حکم تھا۔ اس کے بعد جب عوامی تحریک کے کارکن وہاں سے واپس آ گئے تو پھر دھرنا جاری رکھنابھی مشکل ہو گیا تھا اور آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردی ہوئی تو وہ دھرنے ختم کئے گئے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ عمران خان انتہائی زیرک سیاستدان ہیں انھیں پتا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی کا بیانیہ تو سوشل میڈیا پر بنا لیں گے لیکن اس کے بعد تحریک چلانے کے لئے انھیں ایک مرتبہ پھر کسی طاہر القادری کی ضرورت ہو گی اور اسی لئے انھوں نے اسد قیصر کی سربراہی میں مولانا فضل الرحمن کے گھر تحریک انصاف کے وفد کو بھیجا حالانکہ وہ چند ماہ پہلے تک مولانا کو کبھی ڈیزل اور کبھی فضلو کے نام سے پکارتے تھے لیکن عمران خان کو بخوبی علم تھا جس طرح طاہر القادری کے پاس ان کے مرید تھے تو مولانا فضل الرحمن کے پاس بھی مدرسوں کے طالب علموں کی قوت ہے۔ ایک طرف فضل الرحمن تو دوسری جانب جی ڈی اے اور تیسری طرف محمود خان اچکزئی کی طرف ہاتھ بڑھایا گیا۔ شروع شروع میں سب بڑے پر جوش تھے لیکن اب جی ڈی اے تو مکمل خاموش ہے لیکن مولانا کے پاس ایک مرتبہ پھر اسد قیصر کی سربراہی میں تحریک انصاف کے وفد نے ان کے گھر جا کر ملاقات کی اور انھیں حکومت کے خلاف تحریک میں ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن مولانا بھی پاکستان کی سیاست میں ایک منجھے ہوئے انتہائی دور اندیش سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں اور انھیں اس بات کا یقینا احساس ہو گا کہ 2014 کے لانگ مارچ اور دھرنوں کا اگر کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو وہ علامہ طاہر القادری نہیں بلکہ عمران خان تھے اسی لئے انھوں نے عمران خان کے متعلق گارنٹیاں مانگ لی ہیں لیکن بات یہ ہے کہ عمران خان کی گارنٹی کون دے گا اس لئے کہ وہ خود یو ٹرن کے فضائل بیان کر چکے ہیں لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مولانا کے ساتھ اتحاد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

جب بار بار احتجاج کی کال کے بعد بھی عوام سڑکوں پر نہیں آئے تو پھر اس کے بعد کبھی کسانوں اور کبھی وکلاء کو تھپکیاں دی گئیں لیکن بات نہیں بنی۔ اب یہ دیکھ لیں کہ کسانوں کے ساتھ جو ہاتھ ہوا ہے وہ ان کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہے اور اس پر کسان چند دن احتجاج کے لئے گھروں سے باہر نکلے بھی تھے لیکن جیسے ہی موسم نے کروٹ لی اوور سورج نے آگ برسانا شروع کی تو کسانوں کی ہمت بھی جواب دے گئی کہ آخر وہ بھی تو انسان ہی ہیں تو اگر وہ کسان کہ جو تپتی دھوپ میں کھیتوں میں کام کرتا ہے وہ اس گرم موسم میں گھر بیٹھ گیا ہے تو سیاسی کارکن کسی تحریک کے لئے کیسے سڑکوں پر آئیں گے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ عمران خان خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے بلکہ وہ تحریک کا ماحول بنانے کی پوری کوشش کریں گے اور اگست ستمبر کے بعد جب موسم کی شدت میں کمی آئے گی تو حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی پوری کوشش کریں گے۔ باقی ان کی مقبولیت کا فقط ایک بات سے اندازہ لگا لیں کہ سوشل میڈیا اور زمینی حقائق میں کتنا فرق ہے کہ سوشل میں پر عمران خان کی بلیو شرٹ کو لاکھوں کی تعداد میں بیچ دیا گیا لیکن آپ اپنے اردگرد دیکھ لیں کہ کتنی تعداد میں اسے لوگوں نے پہنا ہوا ہے۔

تبصرے بند ہیں.