پی ٹی آئی مقدمات، ثبوت و شواہد کہاں ہیں؟

15

سندھ بلکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور سندھ کے ایک چھوٹے شہر ٹنڈومحمد خان میں پی ٹی آئی کے حامیوں یا کارکنوں کی سوچ میں گہری یکسانیت پائی جائے تو تعجب کے ساتھ اس حقیقت کا ادراک بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیاکے مسلسل پروپیگنڈہ کے ذریعہ ذہن سازی کی کامیاب کوشش ہے۔ دراصل جن مٹھور ساز ہاتھوں سے سوشل میڈیا ایکٹونٹس کو تربیت دے کر پی ٹی آئی کے سپرد کیا تھا۔ مقصد پی ٹی آئی کی مخالف پیپلزپارٹی اور بالخصوص (ن) لیگ اور ان جماعتوں کی قیادتوں کو چور، ڈاکو قرار دے کر عوام کی نظروں سے گرانا اور عمران خان کو قوم کے نجات دہندہ کے طور پر نمایاں کرنا تھا۔ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ بعص یوٹیوبر اور اینکرز بھی ٹرینڈ کئے گئے اس تربیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ تربیت یافتگان کا ذہن بن گیاکہ عمران جس کے خلاف بات کرے پنجے جھاڑ کر اس کے پیچے لگ جاؤ، شاید یہ مکافات عمل ہے کہ تربیت دینے والے بھی ایک دن اس روش کی زد میں آگئے۔
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔

میرا خیال ہے کراچی اور ٹنڈومحمد خان کے کارکنوں کی سوچ میں یکسانیت کو پورے ملک تک وسیع سمجھا جاسکتا ہے۔ ان سطور کا پس منظر ان دونوں شہروں میں پی ٹی آئی کے بعض حامیوں یا کارکنوں سے ایک جیسے سوالات کے ایک جیسے جوابات کا ملنا ہے۔ مثلاًیہ سوال اپنے پورے عرصہ اقتدار میں عمران خان اپنا کوئی ایک بھی وعدہ پورا نہیں کرسکا۔ کیوں؟دونوں شہروں سے ایک ہی جواب۔ ”ایسے کام ہی نہیں کرنے دیا گیا“لیکن جو کام کرنے سے روکنے کی طاقت رکھتے ہیں اقتدار کے آخری لمحے تک ان کے حوالے سے ”ایک پیچ پر ہیں“کاراگ الاپا جاتا رہا ہے۔ جواب، ”بیوروکریسی میں نواز شریف اورزرداری کے حامیوں نے رکاوٹیں ڈالیں۔“سوال عسکری قیادت پوری طرح پشت پر تھی تو حکومتی اختیارات کی قوت سے ایسے بیوروکریٹس کو نکیل ڈالی سکتی تھی۔ جواب ”سوال گندم، جواب چنا“ کے مصداق اوجی، کارکردگی کی بات کرتے ہیں دیکھیں کے پی کے میں کیسا نظام درست کردیا، پولیس کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے وہاں کرائم کا خاتمہ ہوگیا ہے ”سوال، بھائی وہاں تو عام جرائم پہلے ہی نہیں ہوتے تھے کے پی کے اور بلوچستان کا تو کلچر ہی مختلف ہے پولیس والا کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنائے گا یا زیادتی کرے گا تو وہ دراصل نسل درنسل دشمنی کی بنیاد رکھے گا۔ قتل تک کی ایف آئی آر درج کرانے کی بجائے خود بدلا لینے کو ترجیح دی جاتی ہے ہاں، پنجاب میں بہت سی قباحتیں ہیں وہاں کا نظام کیوں نہیں تبدیل ہوا خاصی مضبوط حکومت تھی، جواب ”پنجاب ہی میں تو نوازشریف اور شہباز شریف کے حامی افسروں نے گڑبڑ کی“ سوال۔ مگر وہ چارچیف سیکرٹری اور تین انسپکٹر جنرل پولیس مرضی کے لائے گئے تھے جواب۔۔۔۔۔ ہو کر” ان چوروں اور ڈاکوؤں نے اس ملک کو جس طرح لوٹا ہے ان سے حساب لیا جائے گا“اسے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بنادی گئی، ذہنیت قرار دے کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے مگر ایک اہم سوال یہ بھی تو ہے کہ مجھ سمیت کئی صحافی اور کالم نگار عمران کے بعض اقدامات کو ملکی مفاد کے منافی جان کر اور بالخصوص 9مئی کے واقعہ کو دشمنوں جیسی کارروائی کا یقین رکھ کر عمران کے خلاف مسلسل خامہ فرسائی کررہے ہیں وہ کہاں کھڑے ہیں جب پی ٹی آئی کے وہ لوگ بھی جو 9مئی کے واقع میں براہ راست ملوث ہیں ایک ایک کرکے ضمانتوں پر رہائی حاصل کررہے ہیں، بلکہ قومی وصوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں آپے سے باہر نظر آرہے ہیں۔ کے پی کے میں باقاعدہ حکومت بناکر نہ صرف مخالفین بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست تڑیاں لگا رہے ہیں۔ ان کے خلاف ڈی جی آئی ایس پی آر کے دعوے کے مطابق ٹھوس ثبوت اور ناقابل تردید شواہد کہاں ہیں۔ ایک سال سے زیادہ ہوگیا وہ کس سردخانے میں مدہوش پڑے ہیں۔

کیا اس سارے منظر نامے میں یہ تسلیم کرجائے کہ عمران کیلئے امریکہ کی صورت بیرونی دباؤ اور فوجی حکام کی فیملیوں کی شکل میں اندرونی دباؤ اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ امریکہ عمران کا وہ دشمن ہے کہ اس نے عمران کی حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور سائفر کے ذریعہ سازش کرکے اس کی حکومت کاخاتمہ کرادیا تھا ویسے یہ کیسا دشمن ہے کہ عین ان لمحات میں جب عمران سائفر ہراکر اور اپنے خلاف امریکی سازش کی دہائیاں دے رہا تھا عین ان لمحات میں امریکی سفیر اس وقت کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کے وزیراعلیٰ محمود خان کو چالیس گاڑیوں کا تحفہ پیش کررہا تھا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے اس کا والہانہ استقبال کیا جارہا ہے۔ آج بھی امریکی سفیر کو کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کیلئے مروڑ اٹھ رہے ہیں اور اب سوچو وہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈپورکو جمعرات کے روز امریکی یوایس ایڈ کی جانب سے ایمبولینس گاڑیوں کا تحفہ پیش کیا گیا یہ دشمنی کا دوستی جیسا انداز کیسا ہے؟

امریکہ کی پی ٹی آئی حکومتوں پر مہربانیاں اور عمران کی رہائی کیلئے سرگرمیوں سے اس حقیقت کا ثبوت نہیں ملتا کہ امریکہ پاکستان میں اپنے مفادات کا سب سے قابل اعتماد مہرہ عمران خان کو سمجھتا ہے جس نے سی پیک پر کام روک کر، چینی کمپنیوں پر کرپشن کے بے بنیاد الزامات لگاکر، کشمیر ہتھیانے میں امریکی ایما پر مودی کے سہولت کار کا کردار ادا کر کے پاکستان کو آئی ایم ایف کے جال میں جکڑنے کیلئے ناروا شرائط منظور کر کے اور پھر آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ کر آئی ایم ایف کو پاکستان پر مشکل ترین حالات کا شکار کرنے والی شرائط عائد کرنے کا جواز فراہم کر کے امریکی مقاصد کی آبیاری کی تھی اگر امریکہ ان خدمات کے عوض اب عمران کا حامی وناصر ہے تو تعجب کیسا۔

پی ٹی آئی کے ایک وکیل نے بڑی برہمی کے ساتھ کہا جو لوگ عمران کو یا پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کا ججوں پر الزام لگارہے ہیں ان سب کے خلاف توہین عدالت قانون کے تحت سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے ان سے عرض کیا، حضور والا، کیا ایسا نہیں ہورہا، جواب ملا، پراسکوٹیشن عمران اور پی ٹی آئی کے خلاف کوئی ثبوت پیش ہی نہیں کرے جس سے انہیں سزا ہو سکے اور پراسیکوٹیشن کوئی ثبوت اس لئے پیش نہیں کر رہی کیونکہ کوئی ثبوت ہیں ہی نہیں، ویسے غور کیا جائے تو ان کی بات کو یکسر جھٹلانا کم ازکم مجھے مشکل لگ رہا ہے کیونکہ امرواقعہ ایسا ہی ہے اگر پراسیکوٹیشن ٹھوس ثبوت پیش کرے تو جج خواہ کتنا ہی جانبدار ہو وہ فیصلے میں آسانی محسوس نہیں کرے گا اور ٹھوس ثبوت وشواہد کے باوجود ریلیف دے گا تو خود ایکسپوز ہو گا۔

اس حوالے سے حکومت اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ سے بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر پراسیکوٹیشن کو ٹھوس ثبوت اور شواہد فراہم کرکے اور مضبوط بناکر عدالتی اکھاڑے میں کیوں نہیں اتارا جارہا ان ثبوتوں کو سربستہ راز بناکر کیوں رکھا جا رہا ہے اگر واقعی یہ کسی بیرونی یا اندرونی دباؤ کا شاخسانہ ہے کہ بالآخر عمران کے سامنے سرنڈر کرنا ہے تو ایسی صورت میں فوج کیلئے بہترین باعزت راستہ یہ ہے کہ سارے معاملات یعنی عمران اور پی ٹی آئی کے مقدمات کو سول حکومت کے سپرد کرکے خود کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف کرلے جبکہ یہ معاملہ سنگین بھی ہے اوسطاً ایک جوان روز شہید ہورہا ہے۔

ویسے عمران کے ملکی مفاد کے منافی اقدامات کی مخالفت میں خامہ فرمائی کرنے والے اسے حب الوطنی جان کر ڈٹے ہیں، ڈٹے رہیں گے۔

تبصرے بند ہیں.