دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک بھارت میں لوک سبھا کی 543سیٹوں کیلئے عام انتخابات کا مرحلہ وارانعقاد جاری ہے۔ 19اپریل سے یکم جون تک سات مراحل میں ہونیوالے ان انتخابات میں 97کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کررہے ہیں۔ بھارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان 4جون کو کیا جائے گا اور 543 کے ایوان میں 272 یا اس سے زائد سیٹیں حاصل کرنیوالی جماعت یا اتحاد نئی حکومت بنائے گی۔ گزشتہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 303 جبکہ کانگریس کو صرف 52سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ حالیہ انتخابات بھارتی وزیر اعظم نرنیدر مودی کے سیاسی مستقبل کا بھی فیصلہ کریں گے جو دس برس سے بھارت کے حکمران ہیں۔ 2014ء میں ہونیوالے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارتیہ جتنا پارٹی کے نریندرمودی پہلی بار بھارت کے وزیر اعظم بنے تھے۔ سیاسی تجزیہ کار اس بار بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں بننے والے قومی جمہوری اتحادکی جیت کی ہی پیشگوئی کر رہے ہیں تاہم کچھ حلقوں سے غیر متوقع نتائج بھی آ سکتے ہیں۔ان انتخابات کے نتیجہ میں نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو مسلسل تیسری بار منتخب ہونے والے بھارت کے دوسرے وزیرِ اعظم ہوں گے۔ جواہر لعل نہرو بھارت کے واحد وزیر اعظم تھے جو مسلسل تین بار اس منصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
پاکستان اور بھارت میں چلنے والی انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی تقاریرمیں صرف مقامی مسائل اور مخالفین پر الزامات لگانے پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں اسکے برعکس بھارتی رہنما ئوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں پاکستان اور مسلمان مخالف بیانیہ پیش کرکے ہندوتواکارڈ کا استعمال کریں۔ بھارتی رہنمائوں کا من پسند موضوع پاکستان ہی ہوتا ہے اور ان انتخابات میں بھی انہوں نے مسلمانوں اور پاکستان کے بارے جارحانہ رویہ اپنائے رکھا۔ پاکستان کیخلاف عوامی جذبات کو ابھارنا بھارت کی بڑی سیاسی جماعتوں کا اہم ہتھیار رہا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ کامیابی بھی اسی کی جھولی میں آکر گرتی ہے جو زیادہ زہر اگلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں اس ہتھیار کو نہ صرف اچھے طریقہ سے استعمال کرتی بلکہ ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کی سرتوڑ کوششیں بھی کرتی ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران کبھی بھارت دشمن بیانیہ یا نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بھارت میں اگرچہ ہندوئوں کی اکثریت ہے لیکن وہاں 22 کروڑ سے زائد مسلمان بھی آباد ہیں جو مختلف مسائل کا شکار ہیں اور بڑی سیاسی جماعتیں انتہاپسند ہندو ووٹرز کو خوش کرنے کیلئے بہت کم ان کے حق میں آواز بلند کرتی ہیں۔
پاکستان کیلئے بھارتی انتخابات ہمیشہ ہی اہم رہے ہیں۔ یہاں سیاستدانوں، صحافیوں، سفارتکاروں سمیت ہر شخص اپنے اپنے انداز میں ان انتخابات کا تجزیہ کر رہا ہے۔ تاجر اور سرمایہ کار ان انتخابات کے بعد پاک بھارت تجارتی تعلقات کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو سفارتکار ان انتخابات کے بعد دونوں ممالک کے مابین کسی مذاکراتی عمل کے شروع ہونے یا نہ ہونے پر گفتگو کر رہے ہیں۔ میں نے 2014ء میں بھارتی انتخابات کے متعلق اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا ”نریندرمودی کے برسراقتدار آنے کی صورت میں خطہ میں انہی بداثرات کے مرتب ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے جو ہٹلر کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں یورپ پر مرتب ہوئے تھے“۔ اِس وقت اس بات کا مذاق اڑایا گیا تھا لیکن بعد کے حالات و واقعات نے سوفیصد اس بات کو درست ثابت کر دیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندرمودی کی پاکستان دشمن پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور گزشتہ دنوں بھی نریندرمودی کا یہ بیان ”پاکستان نے اگر چوڑیاں نہیں پہن رکھیں تو ہم اس کو چوڑیاں پہنا دیں گے“ ان کی جارحانہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران بھارت میں مسلمانوں کو ہندوتوا کے حامی شدت پسندوں کی طرف سے بہت مصائب کا سامنا ہے اور ان عناصر کو بھارتی حکومت کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔ گائے ذبیحہ کے نام پر مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہو چکا ہے جبکہ ہندوووٹرز کو رام کرنے کیلئے مودی نے اس کے افتتاحی تقریب میں خو د شرکت کی اور اسے سرکاری تقریب کا درجہ دیا۔ بھارت میں بہت سی دیگر تاریخی مساجد کو شہید کرنے کے علاوہ اسلامی ناموں سے منسوب سڑکوں اور دیگر مقامات کے نام تبدیل کرنا نریندر مودی کی ہندوتوا پالیسی کا عکاس ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا بچپن سے ہی ہندوشدت پسند تنظیم آر ایس ایس کی طرف جھکائو تھا اور محض سترہ برس کی عمر میں وہ اس کے باقاعدہ رکن بھی بن گئے تھے۔ 2002ء میں ان کے وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات میں مسلمانوں کا منظم قتل عام کیا گیا تھا۔ نریندر مودی اپنی مسلمان مخالف پالیسیوں کے سبب ہندو ووٹروں میں کافی مقبول ہیں اور اس بار بھی انہیں ان ووٹوں کی اکثریت ملنے کا یقین ہے، وہ اپنی تقریروں میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کو چارسو سے زائد سیٹیں مل جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نعرہ ہے ”اب کی بار 400پار“ جبکہ راہول گاندھی کی قیادت میں مخالف اتحاد کا نعرہ ”اب کی بار مکمل ہار“ بھی اس کے متوازی چل رہا ہے۔ ابتک بھارت میں سب سے بڑی انتخابی فتح کانگریس نے حاصل کر رکھی ہے جس نے 1984ء کے انتخابات میں راجیو گاندھی کی قیادت میں لوک سبھا کی 414 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی اس سے زائد سیٹیں حاصل کرپائیں گے؟ اس سال کے آغاز میں کیے جانیوالے انتخابی سروے اس بات کی امید دلا رہے تھے کہ نریندرمودی کی طلسماتی شخصیت میں قومی اتحاد یہ ٹارگٹ حاصل کر لے گا لیکن جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آیا اور انتخابی عمل شروع ہوا تو اب محض سادہ اکثریت کی ہی توقع کی جا رہی ہے۔ بھارتی انتخابات کے نتائج نہ صرف اس خطہ بلکہ پاکستان پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ کامیابی کس کا مقدر بنتی ہے ”اب کی بار 400پار“ یا ”اب کی بار مکمل ہار“ ؟۔
تبصرے بند ہیں.