علامہ محمد اقبال کے افکار و نظریات سے متعارف کرانے کے لئے یونیورسٹی آف واشنگٹن ریاستہائے متحدہ امریکا میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ ایشیائی زبانوں کے شعبے کے طلبا و طالبات سے ملاقات میں فکر اقبال پر بحث اور مکالمے کے پروفیسر وحیدالزمان طارق کو مدعو کیا گیا۔ آپ وہاں پہنچے تو جناب ڈاکٹر جمیل استاد اردو نے مہمان مقرر کا والہانہ استقبال کیا۔
ایشیائی زبانوں کے شعبے میں اس نشست کا انتظام اردو کے صاحب علم استاد جناب ڈاکٹر جمیل صاحب نے کیا تھا۔ حاضرین مسلسل تین گھنٹے تک وہاں کے طلبا اور طالبات کے ساتھ محو تکلم رہے اور مختلف فکری، فنی اور شعری جہات پر اقبالیات کے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔
طلبا اور طالبات نے علامہ اقبال کی بچوں کے لئے لکھی گئی نظموں کی بابت استفسار کیا۔ سر عبدالقادر کی 1901 میں جاری کردہ مجلہ مخزن میں برطانوی اخلاقیاتی ادب کو بچوں میں متعارف کرانے لئے علامہ اقبال سے درخواست کی گئی۔ آپ کی نظم
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
ایک طویل عرصہ تک سکولوں کی اسمبلی میں گائی جاتی رہی۔
اقبال پر رومی اور غالب کے اثرات کے ضمن میں بتایا گیا کہ یہ اثرات اس قدر گہرے تھے کہ اقبال اپنی وفات سے پہلے ایک دو ماہ ان دونوں شعراء کی ارواح سے محو گفتگو رہتے تھے۔ رومی تو ان کے مرشد تھے ہی جن کی زیر قیادت آپ نے جاویدنامہ کا آسمانی سفر طے فرمایا۔ غالب کی بابت آپ کا کہنا تھا کہ بیدل اور غالب کے کلام نے مغرب سے وطن لوٹنے کے بعد ان کا تعلق مشرقی اقدار سے قائم رکھا تھا۔ اقبال نے بانگ درا میں اپنی نظم مرزا غالب میں اپنے ممدوح کو گوئٹے اور حافظ شیرازی کا ہمنوا قرار دیا۔ اپنی فارسی شاعری کی کتاب جاوید نامہ میں غالب کی عظمت کا اعتراف کیا۔
علامہ اقبال کے کلام کے ارتقا پر سوالات کئے گئے۔ مہمان مقرر نے بتایا کہ ایک شاعر اپنی زندگی کے تجربات سے آگے گزرتا ہے تو وہ ذاتی مشاہدات کی روشنی میں اپنے کلام میں پختگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نئی جہتوں اور زاویوں کو متعارف کراتا ہے اور اس کا کلام تبھی مقبولیت حاصل کرتا ہے جب وہ قومی مسائل کی بابت بات کرتا ہے اور اپنے فن کی خوبیوں کو آشکار کرتا چلا جاتا ہے۔ اقبال کی قومی شاعری اور ان کی برصغیر اور برصغیر سے باہر مقبولیت کی وجوہات اور پذیرائی پر بحث ہوئی۔ اقبال کا پیغام آفاقی تھا اسی لئے اس کے بے شمار تراجم ہوئے اور فارسی کلام کو ایران، افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے علاوہ برصغیر کے علم دوست حلقوں میں براہ راست پڑھا گیا۔ ان کے کیمبرج میں نکلسن اور آربری کے قلم سے انگریزی میں تراجم ہوئے اور چھاپے گئے۔ عربی میں عبدالوہاب العزام نے شعری ترجمے کئے اور پھر یہ سلسلہ رک نہیں پایا جو ان کے کلام و افکار کے طلب کی دلیل ہے۔
ایک افغانی طالب علم عبدالواجد واحدی نے اقبال کی افغانستان میں مقبولیت کے حوالے سے ان کے افغانستان کی قوم کو کئے گئے خطاب، پیام مشرق کے انتساب اور اقبال کی فارسی شاعری پر سوالات کئے۔ ایک طالبہ نے اقبال دو قومی نظریے پر سوال کیا اور اسے اقبال کی اجتماعی فکر جس کا اظہار نیا شوالہ میں کیا گیا تھا اس سے متضاد قرار دیتے ہوئے اس کی وجہ دریافت کی۔ پروفیسر وحیدالزمان طارق نے اقبال کے کلام کی بین الاقوامی جہات پر کھل بات کی۔ آپ نے دو قومی نظریہ کی وضاحت کی اور برصغیر کی معروضی صورتحال میں ایک قابل عمل حل قرار دیا۔ اقبال خانہ جنگی چاہتے تھے اور نہ قتل عام۔ حالات تیزی سے بدل رہے تھے اور تقسیم ہند کے موقع پر جو کچھ مختلف گروہوں کی طرف سے تشدد اور لوٹ مار کی صورت میں ہوا وہ قابل افسوس تھا اور دو قومی نظریہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
ماحول انتہائی دوستانہ تھا اور ہر بات بے تکلف انداز میں زیر بحث آئی۔ آپ نے اپنی کتب کا ایک سیٹ یونیورسٹی کے لائبریری کو تحفے کے طور پر پیش کیا۔ لائبریری میں علامہ اقبال کے کلام اور افکار پر کتب کو دیکھ کر بے پناہ خوشی ہوئی۔ طلبا اور اساتذہ نے مہمان آمد کا شکریہ ادا کیا۔ میرے ہمراہ جناب خالد حفیظ تھے۔ ان کی بیٹی بھی اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ وہ بچی ہمیں ملنے کے لئے آئی تھیں۔
تبصرے بند ہیں.