مالیاتی سکینڈل…موسیٰ کی زندگی اور فرعون کا انجام

21

گزشتہ سے پیوستہ کالم میں پاکستان کے ایک اور بڑے مالیاتی سکینڈل کے بارے میں ہوشربا انکشاف کے بارے لکھے گزشتہ کالم کے لکھے کے جواب میں میرے ایک دوست نے مجھے خط لکھا اور اس میں ماضی کے ایک زمینی سکینڈل کے بارے چونکا دینے والی باتیں لکھیں۔ پاناما اور اب مالیاتی سکینڈل اور اس سے پہلے بے شمار سکینڈل ہی سکینڈل کس کا ذکر کریں نہ کریں۔ ہمیں تو ہر ایک نے لوٹا ہر ایک نے مارا مفادات کی جنگ میں ہماری قوم اور تباہ ادارے ہوئے۔

مالیاتی سکینڈل میں بڑے دودھ کے دھلوں نے بے حد کرپشن کرتے ہوئے پوری دنیا میں اپنی نسلوں کو بھی بڑی جائیدادیں دے کر ان کا مستقبل تو محفوظ کر دیا ہے مگر ہماری قوم مزید نیچے گرتی گئی۔ یہ لوٹ مار بڑے کر رہے ہیں اور چھوٹا بے گھر ہو کر غربت کی زندگی جی رہا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غریبی غریب کے لیے باغی ہونے کا لائسنس ہے، کیا غریب کے لیے سوائے سسکنے، مرنے اور مر کے جینے کی زندگی کے سوا کچھ نہیں۔ آج غریب مایوس ہے، وہ باغی ہو کر غلط راستوں پر اس لیے چل رہا ہے کہ امیر نے تو اس کا سانس بھی روک لیا ہے۔ کیا یہ غریب کا استحصال نہیں کہ محنت وہ کرے اور کھائے امیر…

غریب کو خدا کے لیے صرف نصیحت نہ دو، اسے کلمے نہ پڑھائو، اس کا دکھ بانٹو، اس کا درد بانٹو، اس کی محبت پر حملے نہ کرو۔ اس لوٹی رقم سے اپنی نسلوں کو تو تم سکھ دے رہے ہو اور غریب کی نسل کو اٹھنے نہیں دے رہے۔ مالیاتی کرپشن اور سکینڈل ہے ہم تو ماضی سے لٹتے ہی چلے آ رہے۔ ہماری عدلیہ، ہماری سیاست اور ہمارے بیوروکریٹس نے تو 1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوا تھا یعنی روز اول ہی سے لوٹ مار اور کرپشن کا آغاز کر دیا تھا۔

خط کے آغاز میں انہوں نے لکھا کہ پڑھتا جا شرماتا جا اور لکھا جا…تم لکھنے کا حق ادا کرو وہ لوٹنے کا حق ادا کر رہے ہیں شاید پاکستان اور اس کے عوام کی قسمت میں یہی کچھ تو لکھا ہے کہ بڑے خاندان، بڑے نام، بڑی زندگیاں، بڑی لوٹ مار، بڑی چوریاں، ڈاکے ڈالو تعلقات بنائو پاکستان کا کیا ہے اس کو تو چلنا ہے اور یہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ میرے دوست نے جو ماضی کے بڑوں کے بارے میں لوٹ مار کے انکشافات کئے ذرا ان کو بھی تو دیکھتے چلیں تاکہ تصویر کے دونوں رخ سامنے آ جائیں اور یہ بھی طے ہو جائے کہ صرف مالیاتی نہیں زمینی سکینڈل بھی بڑی کرپشن کا حصہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں…
پڑھتا جا اور شرماتا جا
بلکہ زور زور سے روتا بھی جا

1955ء میں کوٹری بیراج کی تکمیل کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے آبپاشی سکیم شروع کی۔ 4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کے بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے:
1: جنرل ایوب خان۔ 500 ایکڑ، 2: کرنل ضیااللّہ۔ 500 ایکڑ، 3: کرنل نورالٰہی۔ 500 ایکڑ، 4: کرنل اختر حفیظ۔ 500 ایکڑ، 5:کیپٹن فیروز خان۔ 243 ایکڑ، 6: میجر عامر۔ 243 ایکڑ ،7: میجر ایوب احمد۔ 500 ایکڑ، 8: صبح صادق۔ 400 ایکڑ۔ صبح صادق چیف سیکرٹری بھی رہے۔

1962ء میں دریائے سندھ پر کشمور کے قریب گدو بیراج کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس سے سیراب ہونے والی زمینیں جن کاریٹ اس وقت 5000-10000 روپے ایکڑ تھا۔ عسکری حکام نے صرف 500 روپے ایکڑ کے حساب سے خریدا۔
گدو بیراج کی زمین اس طرح بٹی:
1: جنرل ایوب خان۔ 247 ایکڑ، 2: جنرل موسیٰ خان۔ 250 ایکڑ، 3: جنرل امراؤ خان۔ 246 ایکڑ، 4: بریگیڈیئر سید انور۔ 246 ایکڑ۔ دیگر کئی افسران کو بھی نوازا گیا۔

ایوب خان کے عہد میں ہی مختلف شخصیات کو مختلف بیراجوں پر زمین الاٹ کی گئی۔ ان کی تفصیل یوں ہے:
1: ملک خدا بخش بچہ ، وزیر زراعت۔ 158 ایکڑ، 2: خان غلام سرور خان، وزیر مال۔ 240 ایکڑ، 3: جنرل حبیب اللّہ، وزیر داخلہ۔ 240 ایکڑ، 4: این۔ایم۔ عقیلی وزیر خزانہ۔۔249 ایکڑ، 5: بیگم عقیلی۔ 251 ایکڑ، 6: اخترحسین، گورنر مغربی پاکستان۔ 150 ایکڑ، 7: ایم۔ایم۔احمد مشیر اقتصادیات۔ 150 ایکڑ، 8: سید حسن ڈپٹی چیئرمین پلاننگ۔ 150 ایکڑ، 9: نوراللّہ، ریلوے انجینئر۔ 150 ایکڑ، 10: این۔اے۔قریشی، چیئرمین ریلوے بورڈ۔ 150 ایکڑ، 11: امیر محمد خان، سیکرٹری صحت۔ 238 ایکڑ، 12: ایس۔ایم۔شریف سیکرٹری تعلیم۔ 239 ایکڑ جن جنرلوں کو زمین الاٹ ہوئی۔ ان کی تفصیل یوں ہے:
1: جنرل کے۔ایم۔شیخ۔ 150 ایکڑ، 2: میجر جنرل اکبر خان۔ 240 ایکڑ، 3: بریگیڈیئر ایف۔آر۔کلو۔ 240 ایکڑ، 4: جنرل گل حسن خان۔ 150 ایکڑ۔ گوہر ایوب کے سسر جنرل حبیب اللّہ کو ہر بیراج پر وسیع قطعہ اراضی الاٹ ہوا۔ جنرل حبیب اللّہ گندھارا کرپشن سکینڈل کے اہم کردار تھے۔

جنرل ایوب نے جن ججز کو زمین الاٹ کی:
1: جسٹس ایس۔اے۔رحمان 150 ایکڑ، 2: جسٹس انعام اللّہ خان۔ 240 ایکڑ، 3: جسٹس محمد داؤد۔ 240 ایکڑ، 4: جسٹس فیض اللّہ خان۔ 240 ایکڑ، 5: جسٹس محمد منیر۔ 150 ایکڑ۔ جسٹس منیر کو اٹھارہ ہزاری بیراج پر بھی زمین الاٹ کی گئی۔ اس کے علاوہ ان پر نوازشات رہیں۔

ایوب خان نے جن پولیس افسران میں زمینیں تقسیم کیں:
1: ملک عطامحمدخان ڈی۔آئی۔جی 150 ایکڑ، 2: نجف خان ڈی۔آئی۔جی۔ 240 ایکڑ، 3: اللّہ نواز ترین۔ 240 ایکڑ۔ نجف خان لیاقت علی قتل کیس کے کردار تھے۔ قاتل سید اکبر کو گولی انہوں نے ماری تھی۔ اللّہ نواز فاطمہ جناح قتل کیس کی تفتیش کرتے رہے۔

1982ء میں حکومت پاکستان نے کیٹل فارمنگ سکیم شروع کی۔ اس کا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کو بھیڑ بکریاں پالنے کیلئے زمین الاٹ کرنی تھی۔ مگر اس سکیم میں گورنر سندھ جنرل صادق عباسی نے سندھ کے جنگلات کی قیمتی زمین 240 روپے ایکڑ کے حساب سے مفت بانٹی۔ اس عرصے میں فوج نے کوٹری، سیہون، ٹھٹھہ، مکلی میں 25لاکھ ایکڑ زمین خریدی۔ 1993ء میں حکومت نے بہاولپور میں 33866 ایکڑ زمین فوج کے حوالے کی۔
اور آخری بات …

ایک ایسے ملک میں جہاں عام آدمی چند مرلے کے پلاٹ کے لئے ساری زندگی ترستا رہتا ہے کیا یہ نوازشات و مراعات یا قانونی اور حلال کرپشن ہے یا اس کی بے پناہ لالچ و حرص و حوس؟ کیا عوام کو اس کے خلاف آواز اٹھا کر اس غیر قانونی حلال کرپشن کو روکنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں.