آئی پی پی کی ممبر شپ مہم اور شعیب صدیقی کی بریفنگ

106

چند دن پہلے برادرم شعیب صدیقی جنرل سیکرٹری آئی پی پی پنجاب نے پنجاب کے مرکزی آفس واقع اپر مال لاہور میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ استحکام ِ پاکستان پارٹی عنقریب اپنی ممبر شپ مہم شروع کرنے جا رہی ہے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آئندہ جلد آنے والے بلدیاتی اور پھر اگلے عام انتخابات میں وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترنا چاہتے ہیں اور اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرنے کی سیاست کرنے کے خواہش مند ہیں۔ پریس کانفرنس کے بعد شعیب صدیقی سے ممبر شپ مہم کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ کسی سیاسی جماعت کی ممبر شپ اُس کے بنیادی کارکنوں کا اپنی جماعت سے یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے منشور اور قیادت سے سو فیصد متفق ہے اور دوسرے تمام سیاسی و تنظیمی معاملات افہام و تفہیم سے جمہوری طریقے کار سے طے کیے جائیں گے۔ حقیقی ممبر شپ سے پہلے اپنا پارٹی منشور، مقاصد اور اہداف کی تشہیر سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ عام آدمی تنظیم کے منشور سے متفق ہو کر اس کا حصہ بننے کیلئے کمپین کیمپ لگنے سے پہلے ہی ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔ اس کیلئے ابلاغیات کے تمام میڈیم استعمال کرنے چاہئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ سیاسی جماعت کو اپنے مخصوص علاقوں، آبادی یا گروہوں کے بارے میں علم ہوتا ہے جنہیں سیاسی جماعت اپنی ’’سیاسی پاکٹس‘‘ قرار دے چکی ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھی شہرت رکھنے والے افراد اور دوسری سیاسی جماعتوں میں کام کرنے والے لوگ جو کسی وجہ سے اپنی سیاسی جماعت سے متنفر ہو چکے ہیں انہیں اپنی سیاسی جماعت میں لانے کیلئے کام کیا جائے۔

ممبر شپ سے پہلے تشہیری مہم چلائی جاتی ہے اس کے بعد مختلف ایونٹ رکھے جاتے ہیں جس میں عام آدمی کی شرکت ہوتی ہے اور انہیںسوشل میڈیا کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی تشہیری مہم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ممبر شپ مہم شروع کرنے کے ساتھ ہی خوبصورت سلوگن، ون لائنرز، منشور کی جزئیات، مستقبل کے خوبصورت نعرے، دوسری سیاسی جماعتوں کی وعدہ خلافیوں پر ڈاکیومنٹریز، کالمز، ریلیز، ٹک ٹاک، انٹرویوز، گرافکس، پبلک سرویز کے علاوہ کمیونیکیشنز کے تمام ذرائع کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ تنظیم کے بانی اراکین یا عہدے دار یقینا منتخب نہیں ہوتے لیکن ممبر شپ کے بعد انہیں الیکشن کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اُس سے پہلے تمام بڑے عہدیداران کو اپنے نام کے ساتھ اپنا عہدہ لازمی استعمال کرنا چاہیے۔ جیسا کہ عبد العلیم خان کے نام کے ساتھ مرکزی صدر استحکام پاکستان پارٹی و وفاقی وزیر برائے نجکاری و مواصلات لازمی لکھا جانا چاہیے۔ اِس وقت پاکستان کے نوجوانوں کی بڑی اکثریت اور اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا اور آئی ٹی سے مستفید ہو رہی ہے سو ایک انتہائی خوبصورت ویب سائٹ ڈیزائن کرنا ہو گی تا کہ ممبر شپ نہ صرف درست ہو سکے بلکہ جہاں کا آئی ڈی کارڈ ہو اُس ضلع اور تحصیل میں ممبر شپ لینے والا خود بخود رجسٹرڈ ہو جائے جسے مقامی قیادت فوری طور پر رابطہ کر کے اُسے تنظیم کا حصہ بنا لے۔ ممبر شپ مہم میں نوجوانوں کو یقین دلایا جائے کہ یہ عام آدمی کی جماعت ہے اور اِس میں عام نوجوانوں کیلئے قیادت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ یہاں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پاکستان کے بہترین مفاد میں استعمال کرنا چاہتے ہیں کیونکہ نوجوان ہی تحریکوں کا انجن ہوتے ہیں اور جس تنظیم کے پاس تربیت یافتہ نوجوان زیادہ سے زیادہ ہوں وہ ایک بڑی اور کامیاب تنظیم بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جو کسی بھی قسم کے نرم و گرم حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوتی ہے۔ ممبر شپ کے بعد نوجوانوں کی تربیت کا عمل شروع ہونا چاہیے تاکہ جلد ہی تعداد سے معیار نکال کر ملکی خدمت پر مامور کر دی جائے اور یہی کوالٹی مستقبل قریب میں سیاسی تنظیم کی نوجوان قیادت ہوتی ہے۔

استحکامِ پاکستان پارٹی کو اپنے تنظمی ڈھانچے میں مرکز سے لے کر وارڈ تک سوشل میڈیا ہیڈ کا عہدہ رکھنا ہو گا جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ جب سیاسی ورکر سوشل میڈیا پر آپ کا سٹیک ہولڈر بن جائے تو پھر اُس سے بڑی تنظیم بنانا کسی دوسرے کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس سے سوشل میڈیا کیلئے پیڈ ورکر ہائر نہیں کرنا پڑتے کیونکہ پیڈ ورکر لازمی نہیں کہ آپ کے منشور اور سیاسی خیالات سے متفق بھی ہوں لیکن آپ کا سیاسی ساتھی ہمیشہ ہر محاذ پر آپ کے موقف کا دفاع کرنا اپنی ذمہ داری سمجھے گا۔ انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں اب آپ کا کمرہ، آپ کا کلاس روم اور آپ کا موبائل، لیب ٹاپ یا کمپیوٹر سسٹم آپ کا استاد ہے۔ سوشل میڈیا پر مکالمے کو رواج دے کر ہم زیادہ سے زیادہ مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ المیہ رہا ہے کہ لیڈر جب جد و جہد کر رہا ہوتا ہے تو وہ ورکروں کے درمیان رہتا ہے لیکن جونہی اُسے مقبولیت حاصل ہوتی ہے یا عوام میں پذیرائی ملنا شروع ہو جائے تو ایک مخصوص قسم کی لابی لیڈر کو اُسی عوام سے دور رکھنے میں مصروف ہو جاتی ہے جس کے نزدیک جانے یا اُن کو نزدیک لانے میں اُس لیڈر نے زندگی کا بڑا حصہ صرف کیا ہوتا ہے۔ سیاست میں لیڈر شپ کی طرف سے حوصلہ افزائی اور وقتاً فوقتاً اُس کے کاموںکی تعریف اور پذیرائی اُس کیلئے آکسیجن کا کام کرتی ہے۔ ممبر شپ مہم کے دوران اہم ورکروں سے مرکزی لیڈر شپ کی ملاقاتیں اور رابطہ لازمی رہنا چاہیے۔ اِس سے تنظیم سازی میں بھی آسانی ہو جاتی ہے اور ورکر انپے آپ کو تنظیم کا لازمی حصہ سمجھنا شروع ہو جاتا ہے اور یہی کسی بھی سیاسی جماعت کی فتح کا سب سے بڑا نشان ہوتا ہے کہ اُس کا ورکر ہر حالات میں اپنی تنظم کو اون کرے اور ایسا صرف اُسے عزت دے کر ہی ممکن ہے کیونکہ سیاسی ورکر پورے سماج کی عزت کی لڑائی لڑ رہا ہوتا ہے سو وہ اپنی عزت پر کسی صورت بھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا۔

ممبر شپ کی کامیابی کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ ممبر شپ کا جائزہ لیا جاتا رہے اور اسے بہتر سے بہترین کی طرف لے جانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ ممبر شپ کی رفتار، دوسرے اضلاع اور تحصیلوں سے اُس کا موازنہ، زیادہ ممبر شپ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ممبر شپ کو سنبھالنے کا سائنٹیفک انتظام کیا جائے اور ایک بھی درست ممبر شپ ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ بانی اراکین کی ممبر شپ کو الگ سے ویب سائٹ پر رکھا جائے تاکہ انہیں ہمیشہ عزت و احترام دیا جا سکے۔ بانی ممبر کی ممبر شپ ختم کرنے کا اختیار صرف چیئرمین یا مرکزی صدر کے پاس ہونا چاہیے اور اُسے کسی ایسی کمیٹی کے سامنے جوابدہ نہ کیا جائے جو بانی اراکین پر مشتمل نہ ہو۔ ممبر شپ مہم کے دوران اخلاقی اور قانونی نکات کو ذہن میں رکھا جائے کہ یہی کسی بھی سیاسی جماعت کی کامیابی کی اولین ضمانت ہوتی ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں اور آپس میں الجھنے سے پرہیز کیا جائے۔ کسی ایسی جگہ ممبر شپ کیمپ نہ لگائے جائیں جہاں آمد و رفت یا ٹریفک کا مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ شعیب صدیقی جیسا با صلاحیت اور ہمت والا شخص پوری شان سے صراط کے اس پل سے گزر جائے گا کہ اس کے بغیر ایک مضبوط تنظیم کا تصور صرف خواب کا سوا کچھ نہیں۔

تبصرے بند ہیں.