پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر … پاکستان کیلئے مسیحا!

73

پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر کے بارے میں جتنا میں نے سنا تھا، وہ اس سے بھی کہیں زیادہ قابل، با اخلاق اور محب وطن پاکستانی نکلے۔ اُن کی کاوشوں سے پی کے ایل آئی (پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیوٹ) بنا، جہاں ہر سال ہزاروں مریض شفا پا رہے ہیں، یہ اگر پیسہ کمانا چاہتے تو دنیا میں امریکا سے بہتر کوئی ملک نہیں تھا، لیکن انہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا، یہاں کے لوگوں کے درمیان رہنے کا انتخاب کیا، یہ امریکا میں دو جہازوں کے مالک تھے، اپنا گھر تھا، تحفظ اور عزت کا احساس بھی تھا، پولیس ہو یا عدالت پروفیسر کی حیثیت سے ان کا احترام کرتی تھی لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آ گئے، انہوں نے درجنوں ایوارڈز حاصل کیے اور ہزاروں لوگوں کی دعائیں لیں لیکن آخر میں کیا ہوا؟ ہم نے انہیں عدالتوں کی سیڑھیوں پر ذلیل کر دیا، ہم نے ان کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا اور ہم نے ان سے اس عمارت کا حساب مانگنا شروع کر دیا جو پنجاب حکومت نے بنائی تھی، کیا یہ زیادتی نہیں، کیا یہ علم، نیک نیتی اور خدمت کی توہین نہیں؟ یہ سب کچھ اُن کے ساتھ گزشتہ دور حکومت میں ایک سابق چیف جسٹس کے سوموٹو کے بعد ہوا، جس میں اُن کا ذاتی مفاد تھا جو بعد میں ثابت ہو گیا۔ اس کی تفصیل میں، میں نہیں جانا چاہوں گی کیوں کہ یہ ہم سب جانتے ہیں اور اس کیس کی وجہ سے ہماری جگ ہنسائی بھی ہو چکی ہے۔ بس اتنا بتانا چاہوں گی کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر جو ڈاکٹر صاحب کی کاوشوں سے تعمیر ہوا اور لاہور میں واقع ہے، یہاں سالانہ ہزاروں مریض صحت یاب ہو کر بہترین زندگی گزار رہے ہیں، یہ اگست 2017ء میں مکمل ہوا اور اس میں 800 بیڈز ہیں جن کی کل لاگت روپیہ 20 ارب (US$150 ملین) آئی ہے۔ اس ہسپتال میں دی جانے والی خدمات میں نیفرولوجی اور رینل ٹرانسپلانٹیشن، معدے / ہیپاٹولوجی، کڈنی ٹرانسپلانٹیشن اور یورولوجی، ہیپاٹو بیلیری اور لیور ٹرانسپلانٹیشن، پتھری کا علاج، انفیکشن والی بیماری، اینڈو کرائنولوجی، پلمونولوجی، جنرل سرجری، Inguinal ہرنیا (جالی کی مرمت)، وغیرہ جیسے علاج کیے جاتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر صاحب کی ذاتی زندگی اور ان کی تعلیم کے بارے میں بات کریں تو ڈاکٹر سعید اختر نے سندھ میڈیکل کالج سے 1983ء میں ایم بی بی ایس کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپ پر امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کی مشہور درسگاہ ییل یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، ییل 3 سو 17 سال پرانی یونیورسٹی ہے۔ یونیورسٹی کے 60 لوگوں نے نوبل انعام حاصل کیا، یہ دنیا میں 16ویں نمبر پر آتی ہے اور اس کا میڈیکل کالج دنیا کی شاندار ترین طبی درسگاہوں میں شمار ہوتا ہے، ڈاکٹر سعید اختر امریکا اترے اور امیگریشن آفیسر کو بتایا ’’میں ییل یونیورسٹی کا طالب ہوں‘‘ تو امیگریشن آفیسر نے کاؤنٹر سے باہر آ کر ان سے ہاتھ ملایا، ڈاکٹر صاحب علم کی یہ قدر دیکھ کر حیران رہ گئے، یہ امریکا میں ان کی پہلی حیرت تھی، دوسری حیرت یونیورسٹی کا ماحول تھا، ڈاکٹر صاحب کو نوبل انعام یافتہ پروفیسروں کی سادگی، محبت، شفقت اور علم سے لگاؤ نے حیران کر دیا، یہ پروفیسر رابرٹ شوق، ڈاکٹر الفریڈ ایون اور ڈاکٹر نینسی ریڈل جیسے بین الاقوامی ماہرین کو سلام کرتے تھے تو یہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کافی شاپ میں لے جاتے تھے اور یہ جب تک پوچھتے رہتے تھے، یہ انہیں بتاتے رہتے تھے، ڈاکٹر صاحب نے ییل یونیورسٹی سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹر کیا، یہ سرجن بننا چاہتے تھے چنانچہ یہ ایم اے کرنے کے بعد نیویارک چلے گئے اور Maimonides میڈیکل سنٹر میں داخلہ لے لیا، یہ وہاں چھ سال سرجری سیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ یہ یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ سرجری کے ماہر ہو گئے، ٹیکساس ریاست کی ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی میں یورالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کے لیے پوسٹ نکلی، ڈاکٹر سعید اختر نے انٹرویو دیا اور یہ سلیکٹ ہو گئے، یہ شعبے کی تاریخ کے نوجوان ترین چیئرمین تھے، ڈاکٹر صاحب کو وہاں ہیلتھ مینجمنٹ سیکھنے کا موقع ملا، ڈیپارٹمنٹ کیسے بنائے جاتے ہیں، لوگ کیسے سلیکٹ کیے جاتے ہیں، آلات کہاں سے اور کیسے خریدے جاتے ہیں اور پی سی ون کیسے بنایا اور مکمل کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تبھی انہیں خیال آیا کہ وہ کیوں نہ پاکستان کے لیے کام کریں، کیوں کہ پاکستان ”کڈنی فیلیئر“ میں دنیا میںآٹھویں نمبر پر آتا ہے اور ہیپاٹائٹس کی بیماری میں ہمارا پہلا نمبر ہے، اس کی وجوہات آلودہ پانی، کم پانی پینا، تلی ہوئی اشیا کا اندھا دھند استعمال، ورزش نہ کرنا، موٹاپا اور حکیموں کے خوفناک نسخے ہیں، ہمارے سیکڑوں مریض لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے بھارت جاتے ہیں، حکومت ان پر ہر سال تین چار ارب روپے خرچ کرتی رہی ہے، مگر ہم نے یہ پیسے نا صرف بچائے ہیں بلکہ اپنے ملک کے اندر ہی ایک ایسا بین الاقوامی ادارہ قائم کیا ہے، جو جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہے، اسے بنانے میں ڈاکٹر صاحب کی کاوشوں کو ہم کبھی نہیں بھلا سکتے۔ بہر کیف ہمیں ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے، کیوں کہ یہ قومی ہیروز ہیں، جن کی کاوشیں رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی، یہ شخصیات اپنے اندر ایک ادارے کی خاصیت رکھتی ہیں، اگر ہم ان کی قدر کریں گے تو اور بہت سے لوگوں کے اندر خدمت کا وطن کے لیے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا اور ہم مزید پی کے ایل آئی جیسے ادارے بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ اُمید ہے وزیرا عظم شہباز شریف ان جیسے لوگوں کی خدمات سے فائدہ اُٹھاتے رہیں گے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے!

تبصرے بند ہیں.