محمود مرزا ۔ مثلِ خورشیدِ سحر

134

محمود مرزا صاحب سے میرا ابتدائی تعارف ڈاکٹر الطاف جاوید صاحب مرحوم کی وساطت سے ہوا۔ جو بعد میں ایک قریبی اور قلبی تعلق میں ڈھلا اور محمود مرزا صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ میرے مرحوم والد جناب محمد اختر مسلمؔ سے بھی ان کی ملاقاتیں رہتیں۔ اپنی تحریریں خاص طور پر ان کو بھیجتے تھے۔ مرزا صاحب اکثر عبدالکریم عابد صاحب مرحوم کے گھر پر بھی میرے والد محترم اور مجھے بلا لیتے جہاں فکری گفتگو کی محفل جمتی جس میں عبدالکریم عابد صاحب کے فرزند سلمان عابد صاحب بھی شریک ہوتے تھے۔ محمود مرزا صاحب شام کی سیر باقاعدگی سے کیا کرتے تھے۔ میں بھی اکثر ان کے ساتھ ہوتا اور ان سے فکری رہنمائی حاصل کرتا۔ شام کی سیر کا ساتھ اور سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا جب وہ میو گارڈن لاہور میں منتقل ہو گئے۔
محمود مرزا صاحب سنجیدگی، نفاست، متانت اور بردباری کے خصائص کا بہترین نمونہ تھے۔ عامۃالناس کے مسائل کو سمجھتے تھے اور ہر ممکن مالی و اخلاقی مدد فرماتے تھے۔ اعلیٰ درجے کے مہمان نواز اور بہت اچھے سامع تھے۔ دوسروں کی بات اور نقطہ نظر نہایت تحمل کے ساتھ سنتے اور اگر کوئی اہم نکتہ ہوتا تو دو بار اور سہ بار بھی مکرر کا کہتے۔ وہ جذباتیت کے بجائے دلیل کے حامی تھے اور دوسروں کی رائے کا بھرپور احترام کرتے تھے۔ محمود مرزا صاحب بہت سادہ انداز میں اپنی بات کہتے اور لکھتے، تحریر و تقریر میں اول آخر دلائل کو ترجیح دیتے اور کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے:
مثلِ خورشید سحر فکر کی تابانی میں
بات میں سادہ و آزادہ، معنی میں دقیق

مرزا صاحب اخبارات کی اہم خبروں اور کالموں و مضامین پر نشانات لگا دیتے تھے۔ ان کے عملے کا کوئی فرد انہیں پڑھ کر سناتا تو وہ نہایت توجہ سے سنتے تھے۔ اکثر جب شام کو میں ان کے پاس جاتا تو میں بھی انہیں وہ پڑھ کر سناتا جو انہوں نے پہلے سے الگ کر رکھا ہوتا تھا۔ ان کی کتاب ”مسلم ریاست جدید کیسے بنے“ کی تقریب رونمائی میں پڑھی جانیوالی تقاریر جب میں نے صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیں تو متعدد بار انہیں پڑھ کر سنائیں۔ سننے کے بعد ہمیشہ کہا کرتے ”یار تم پڑھتے بہت اچھا ہو“۔ مرزا صاحب مکمل تحقیق پر یقین رکھتے تھے۔ قرآن پاک کی آیات مبارکہ کے اردو ترجمے کو ترتیب نزولی کے لحاظ سے پہلے صوتی صورت میں مرتب کرا کر سنا اور پھر انگریزی ترجمے کو بھی مرتب کرا کر پڑھا۔ وہ ان آیات کے نزول کے پس منظر اور اس وقت کے حالات پر غور و فکر کر رہے تھے۔ ان کے لیے اس خدمت کا شرف بھی خاکسار کو ہی حاصل ہوا۔

محمود مرزا صاحب ۱۹۳۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ بی کام اور ایل ایل بی کے بعد تقریباً ۴۲ سال کارپوریٹ ٹیکس قوانین کی وکالت کرتے رہے۔ سیاسی اقتصادیات، اقتصادی نظاموں کا تقابلی مطالعہ، اسلام کے معروف معاشی و سیاسی نظریات، ترقی پذیر ممالک کے سماجی اور معاشی مسائل اور مستقبلیات ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ ان کی رائے میں پس ماندہ معاشروں میں بالادست طبقوں، لیڈروں اور سخت گیر ریاستی نظام سے آزادی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن اس آزادی کے بغیر معاشی انصاف ممکن نہیں۔ جب تک ہم یہ طے نہیں کریں گے کہ ملکی دولت اور سیاست پر کون سا طبقہ کنٹرول کرے گا، ملک ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔ محمود مرزا کے نزدیک معاشروں میں انقلاب کا برپا ہونا اور جمہوریت کی مضبوطی بڑی شاہراہوں کی تعمیر اور طویل و جدید ٹرانسپورٹ نظام کے بجائے صنعت کاری اور ٹیکنالوجی سے ممکن ہے۔

محمود مرزا ایک ایسے دانشور تھے جو اپنی فکر کے ساتھ ساتھ اپنے عمل کے حوالے سے بھی محتاط رہے ہیں۔ انہوں نے شہری آزادیوں اور مملکت کے جمہوری تشخص پر کبھی مفاہمت نہ کی۔ ہمیشہ رزق حلال کی جستجو کی اور جو سوچا اسے بڑی احتیاط کے ساتھ بیان کیا۔ مرزا صاحب کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی بات کہتے تھے اور ان چیزوں میں نہیں الجھتے تھے جو ان کے سفر کو کھوٹا کر سکیں۔ محمود مرزا پیشے کے اعتبار سے کارپوریٹ ٹیکس کے وکیل تھے۔ لیکن اپنے مؤکلوں کو کم ٹیکس کی ادائیگی کی تراکیب اور حیلے بتلانے کے بجائے واجب ٹیکس دینے پر قائل کرتے تھے۔

ابتدا میں وہ سابق وزیراعظم چودھری محمد علی کے ساتھ نظام اسلام پارٹی میں شامل رہے۔ محمود مرزا صاحب کی خواہش تھی کہ ہماری سیاست، سماجیات اور معیشت میں علم اور نئی فکر کو طاقت ملے۔ وہ اسی فکر کے ساتھ تحریک استقلال اور تحریک انصاف میں بھی شامل ہوئے لیکن بدقسمتی ہے کہ مرزا صاحب ایسے پڑھے لکھے اور افکارِ تازہ کے حامل افراد کی ہماری سیاسی قیادت اور جماعتوں میںکوئی گنجائش موجود نہیں۔ یہی ان سیاسی جماعتوں کے فکر ی افلاس کی بنیادی وجہ بھی ہے۔

اپنے نظریات کی بنیاد پرجناب محمود مرزا نے نوے کی دہائی میں ایک نئی جماعت کے قیام کی جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں عمران خان میدان ِسیاست میں آئے تھے۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد مرزا صاحب، عمران خان سے بہت مایوس ہوئے اور عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے فکری محاذ پر آخری وقت تک سرگرم رہے۔ ان کے نزدیک عمران خان فکری بحران کا شکار ہیں، جس کے سبب وہ اپنی جماعت کو ایک حقیقی جمہوری جماعت نہیں بنا سکے۔

محمود مرزا، قومی شعور کی سطح بلند کرنے کے عمل میں شریک ہونے کی خواہش کے تحت قومی اخبارات میں مضامین لکھتے رہے۔ انہوں نے ”پاکستان کی معیشت و سیاست، سٹریٹیجی کے تقاضے“، ”آج کا سندھ“، ”پاکستان مسائل اور ان کا پس منظر“، ”مسلم ریاست جدید کیسے بنے“، ”ٹیکس نظام کا سماجی جائزہ“، Social Change Through” Social Politics“ اور ”پاکستان میں منصفانہ معاشرے کی تعمیر“ کے عنوانات سے کتابیں اور کتابچے بھی تصنیف کیے۔

اپنی کتاب ”مسلم ریاست جدید کیسے بنے“ میں انہوں نے نہایت جرأت کے ساتھ مسلم دنیا کو درپیش مسائل کو موضوع بنایا ۔ مرزا صاحب نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ جب تک ریاست اور سیاسی حکومت کے حامل افراد روایت پرست نظریات کی سرپرستی سے دست کش نہیں ہونگے، جدید علوم کا احیا کسی تحریک کی صورت کبھی اختیار نہیں کر سکتا۔ وہ شریعت کی تعبیرِ نو کرتے ہوئے ایک منصفانہ معیشت قائم کرنے کے لیے فکر مند تھے۔ ”مسلم ریاست جدید کیسے بنے“ کے ایک مضمون ”اجتہاد یا الحاد“ میں ایک مقام پر لکھتے ہیں ’’آج کے دور میں صنعت اور تجارت کے شعبوں میں ناجائز منافع کی اتنی شکلیں رائج ہو چکی ہیں کہ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ معیشتوں میں بنک کا سود اب کوئی استحصالی اہمیت نہیں رکھتا‘‘۔ محمود مرزا صاحب ڈاکٹر فضل الرحمن سے اس امر پر مکمل طور پر متفق تھے کہ شریعت کے احکامات جو قرآن مجید اور روایات میں ملتے ہیں یہ درحقیقت اس دور کے تقاضوں کے لحاظ سے دیئے گئے تھے ان احکام میں اصل چیز ان کا ڈھانچہ نہیں بلکہ ان کا مقصد ہے جسے سامنے رکھ کر ہم اپنے تقاضوں کے مطابق قانون سازی کر سکتے ہیں۔

محمود مرزا صاحب اگرچہ۱۱ مئی ۲۰۱۵ء کو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ اپنا فکری سرمایہ ایسے لوگوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں جو ان کے پیغام ’’منصفانہ معیشت قائم کرنے کے لیے سیاسی نظام میں نئی جمہوری روح پھونکنے کی ضرورت ہے، موجودہ نظریات اور قواعد پر رائج جمہوری نظام بے انصافی اور عدم استحکام کا باعث رہے گا اور عوام کی اکثریت کو غربت کے چنگل سے نجات نہ ملے گی‘‘ سے بھی رہنمائی حاصل کریں۔ وہ اخلاقی، مالی اور نظریاتی دیانت اور شرافت کا مرقع تھے۔ جس طرح انہوں نے تعصبات اور مفادات سے بالا تر ہو کر سوچا، لکھا، بولا اور عمل کیا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں.