اعلیٰ عدلیہ تعیناتیاں گمبھیر مسلہ

90

اگر چہ ہمارے ہم وطن انصاف کے قحط کا شکار ہیں اس کے باوجود ان کے دلوں میں عدلیہ کے احترام کے چراغ روشن ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ بہرحال آزاد اور مضبوط ہو۔ پاکستانیوں کی سوچ کے دھارے میں خلفائے راشدین کے دور کے انصاف، معاشی عدل اور انسانی برابری کے آئیڈیلز اب تک زندہ ہیں اور ان کی لاشعوری و شعوری خواہشات کی غمازی کرتے ہیں۔

انہیں اپنی عدلیہ میں اسی قاضی کی تلاش ہے جس کے سامنے حاکمِ وقت ملزم کی طرح پیش ہوتا تھا اور جو قانون کی حکمرانی اور انصاف کے اعلیٰ اصولوں کا محافظ ہوتا تھا۔ اسی لا شعوری خواہش اور جذبے نے افتخار چوہدری اور دیگر معزول ججوں کی بحالی کے لئے عوام کو حکمرانوں کے سامنے لا کھڑا کیا تھا اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح انہوں نے معزول ججز کو بحال کرایا۔ وہ ایک ایسی تحریک تھی جس نے عوام میں قانون کی حکمرانی کے شعور کو بیدار کر دیا اور یہ اس تحریک کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔

اب ایک بار پھر سنا جا رہا ہے کہ حکومت اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتیوں کے حوالے سے آئین میں ترمیم کرنے جا رہی ہے، جس کے لئے قانون سازی پر کام شروع ہو چکا ہے۔ہمارے ہاں جو بھی حکومت آتی ہے وہ عدلیہ کو تابع فرمان بنانے کے لئے اقدامات شروع کر دیتی ہے۔ ناپسندیدہ ججوں کو ہٹانے، وفادار ججوں کو آگے لانے اور اپنے حمایت یافتہ ججوں کی تقرریوں کی کوشش تاکہ آنے والے وقت میں عدلیہ ان کے خلاف فیصلے نہ کر سکے۔ پاکستانی معاشرے کے ٹوٹنے کی ایک وجہ ہمارے عدالتی نظام کی ساکھ تباہ ہونا ہے۔ بالخصوص پچھلے کچھ عرصہ کے دوران ہماری ماتحت عدلیہ خوفناک حد تک کمزور ہوئی ہے۔ اس کے اسباب بہت سے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی کا معاملہ قیامِ پاکستان سے ہی بڑا گمبھیر رہا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اکثر اس بات کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ ہر ملازمت کے لئے ٹیسٹ انٹر ویو کی لازمی شرط ہوتی ہے جب کہ اعلیٰ عدلیہ جیسے اہم اور حساس اداروں میں تقرری کے لئے ایسا کوئی معیار قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔

ہمارے سیاست دان اور اعلیٰ عدلیہ کے متعدد فیصلے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا ریاستی نظام برطانیہ کی طرز پر بنایا گیا پارلیمانی جمہوریت کا نظام ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں عدلیہ کی آزادی اور مکمل غیر جانبداری اس نظام کا بنیادی عنصر ہے۔ برطانیہ میں انتظامیہ اور وزیرِ اعظم اپنی صوابدید پر ججوں کی تقرری نہیں کر سکتے۔ وہاں عدلیہ میں تقرریاں 15 افراد پر مشتمل ایک غیر جانبدار کمیشن کے ذریعے ہوتی ہیں جس کے اراکین اعلیٰ قابلیت اور تجربے کے حامل غیر سیاسی لوگ ہوتے ہیں۔ یہ کمیشن اشتہارات اور آن لائن طریقے سے امیدواروں سے درخواستیں وصول کر کے ان کے ٹیسٹ اور انٹرویو لیتا ہے۔ امیدواروں پر پولیس، محکمہ انکم ٹیکس اور بار ایسوسی ایشنوں سے رپورٹیں لی جاتی ہیں۔ حکومت کمیشن کی سفارشات کے مطابق عدلیہ میں تقرری کرتی ہے۔ اختلاف کرنے پر اسے تحریری طور پر وجوہات بیان کرنا ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اس کے برعکس اہلیت رکھنے والے وکلاء کا حق مار کر چند افراد کی ملی بھگت اور غیر آئینی طریقے سے اپنی صوابدید پر عدلیہ میں تقرریاں کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ خفیہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔ بیچارے عوام کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب تقرریاں ہو جاتی ہیں۔ یہ طریقہ نہ صرف غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہے بلکہ جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے۔ ان کی تقرری کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ یا تو ہائیکورٹ سپریم کورٹ میں خاص مدت کا تجربہ رکھنے والے وکلاء کو ٹیسٹ انٹرویو سے گزارا جائے یا پھر سیشن جج سطح کے ججز کو ٹیسٹ اور انٹرویو لے کر ہائیکورٹس میں تعینات کیا جائے پھر وہاں سے سنیارٹی کی بنیاد پر ججوں کو سپریم کورٹ لے جایا جائے۔ اس طرح اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکے گا۔

ماضی میں عدلیہ ایک طاقتور اور بالاتر ادارہ ہونے کے باوجود عوامی حقوق کا محافظ بن سکا اور نہ ہی دیگر اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کو آئین اور قانون کے تابع رکھ سکا۔ حالانکہ انفرادی طور پر پاکستانی عدلیہ نے بے انتہا ایماندار اور قابل منصف پیدا کئے ہیں، لیکن ایک ادارے کے طور پر اس کے فیصلے ہمیشہ موضوع گفتگو رہے ہیں۔ دستور ساز اسمبلی توڑے جانے کے خلاف مولوی تمیز الدین کی اپیل مسترد کئے جانے سے لے کر 2024ء کے انتخابات سے قبل اور بعد میں کئے فیصلوں پر دباؤ یا نظریہ ضروت کی مہر صاف نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نا انصافی ہے۔ ہر سطح پر انصاف کی فراہمی مفقود رہی ہے۔ برسرِ اقتدار سیاستدان ہوں یا اپوزیشن کے نمائندے، عوام ہوں یا طلبا، وکلاء ہوں یا صحافی، مرد ہوں یا خواتین کسی کو بھی مناسب وقت پر صحیح طریقے سے انصاف نہیں مل سکا۔ یہی احساسِ محرومی ہمارے رویوں میں شدت کی بنیاد بنا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید نوعیت کی مایوسی میں بدل گیا۔ہمیں اپنے وجود کا سوال اٹھانا پڑا۔ ہمارے ارد گرد ایسے حالات بنا دیئے گئے کہ ہم نفسا نفسی اور خود غرضی میں غرق ہو گئے۔ طاقتوروں کی طاقت تسلیم کرتے ہوئے حالات سے سمجھوتے کئے گئے۔ رفتہ رفتہ ہمارے ذہنوں سے یہ بھی نکل گیا کہ کوئی ہمیں ان مایوس کن حالات کی دلدل سے نکال بھی سکتا ہے۔کہنے کو تو یہ کہاوت ہے کہ انصاف میں دیر انصاف کی نفی کے برابر ہے، لیکن ایک نئی کہاوت بھی گھڑی گئی ہے، انصاف میں جلدی، انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے مقدمے سالہا سال چلتے رہتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ عدلیہ دباؤ اور جبر کے بغیر ملک کے مفاد میں اپنے حلف کی پاسداری کرے اور سیاسی مصلحتوں کو چھوڑ کر غیر جانبداری سے تمام فیصلے کرے۔ اگر ہم نے ملکی استحکام کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے کئے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب ملک میں صرف آئین کی پاسداری، قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ ہو گی۔ قانون کی حکمرانی یہی ہوتی ہے کہ سب لوگ یکساں اور قانون کے سامنے برابر ہوتے ہیں کیونکہ کوئی معاشرہ عدل سے محروم ہو کر اپنے اجزائے ترکیبی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ہمارے المیوں میں سے ایک المیہ یہ ہے کہ ہماری عدلیہ نے کبھی زور آوروں کو لگام ڈالنے اور جابروں کا گریبان پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔ لوگوں کی نسلیں، کچہریوں اور عدالتوں میں رلتے تمام ہو جاتی ہیں اور انصاف نہیں ملتا۔ طاقتور لوگ باآسانی من پسند فیصلے حاصل کر لیتے ہیں اور مظلوم کا دامن خالی رہتا ہے۔ معاشرے کی رگ رگ میں بھر جانے والی کرپشن کا ناسور نظامِ عدل کے رگ و پے میں بھی سرایت کر گیا اور ہر سطح کی عدالتوں کے بارے میں ایسی ایسی کہانیاں سنائی دینے لگیں کہ زمین آسمان میں نہ سما سکیں۔

تبصرے بند ہیں.