مرغِ بسمل

100

اک زمانہ تھا کہ پرتکلف ناشتے، ظہرانے، عشائیے سرکار کی جیب سے کھائے جاتے، ہر فرد نے اس پر جب ہاتھ صاف کرنا شروع کئے،تو بڑھتے اخراجات کی بدولت اس طرح کی ”عیاشی“ پر حدود وقیود لگانا پڑی۔

سیاسی مفاہمت کے نام پر بڑے ایوانوں میں یہ سلسلہ البتہ ہنوز جاری ہے، اِسی طرح صاحب بہادراور کمپنی کمانڈر کے ساتھ چھاؤنی میں ”بڑے کھانے“ کی اصطلاح مستعمل ہے،سرکاری اور نیم سرکاری میس میں بھی ذاتی اخراجات پر کولیگ کی خوشی کے موقع پر پارٹی کلچر بھی آباد ہے، پرائیویٹ کمپنیوں میں پارٹی پارٹی کھیلنے کی روایت بھی عودآئی ہے،ان بیچاروں کی روحانی خوشی اُس ”ٹارگٹ“ تک محدود ہے، جس کے حصول کے لئے بڑے پاپڑ بیلنا اور انڈر ہینڈ ”ڈیل“ بھی کرنا پڑتی ہے انسانی خدمت کے مختلف پیشہ جات سے وابستہ حضرات کو بھی دعوت شیراز دی جاتی ہے کہ وہ اس”کار خیر“ میں شوق سے شریک ہوتے، فنکشنز البتہ بڑے ہوٹلز میں انجام پاتے ہیں،افسر شاہی کی مگر خوبی ہے، ان کے کھانے کے معیارات اور مقامات عوام سے الگ تھلگ ہیں،دفتر سے لے کر پارٹیز تک انھوں نے عام شہری سے فاصلہ رکھتے ہوئے سامراج کی روایت کو زندہ رکھ کر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا ہے۔
ماضی میں ہوٹلنگ کا شوق صرف ایلیٹ کلاس ہی ”افورڈ“ کر سکتی تھی، بدیشی کھانے کے انداز و اطوار سے آشنا بھی وہی تھے، چار یا پانچ ستارہ ہوٹل اس قماش کے لوگوں سے آج بھی آباد ہیں، جہاں ہر طرح کی”ڈیل“ کے سہولت کاروں سے روابط انتہائی محفوظ اور آسان ہیں۔ وہاں عام فرد پر نہیں مار سکتا۔
غالب آبادی دیہہ کی باسی ہے، دیسی، سادہ کھانوں پر قناعت اس کی خوب صورت قدر ہے، میڈیا نے البتہ نسل نو کو فاسٹ فوڈ کھانے کی جانب راغب کیا ہے، چھوٹے قصبات اور شہروں میں ان کے برینڈ دستیاب ہیں، حیرت یہ ہے کہ شہروں کے باسی اب دیسی کھانے تلاش میں گرداں ہیں،فوڈ پوائنٹ گاہکوں میں زیادہ مقبول وہ ہیں، جہاں دیسی خالص کھانے ملتے ہیں، بھاری بھر قیمت اداکرتے ہوئے ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں، انسانی فطرت ہے کہ اسی ذائقہ کو وہ پسند کرتا ہے، جو اس کے کلچر سے وابستہ ہو۔ کہاں جاتا ہے کہ دنیا بھر جو کاروبار زیادہ وسعت پا رہا ہے وہ فوڈز کا کام ہے، ہمارے ہاں بھی یہی چلن ہے، وجہ یہی ہے کہ عالمی بر ینڈ کے ہائی جینک فوڈ کی چینز بھی کامیابی سے یہاں چل رہی ہیں، کھانے کا نیا کلچر انھوں نے متعارف کروایا ہے، ہائی اور موٹر ویز پر بھی ان کے آؤٹ لیٹ کھل چکے ہیں، کم قیمت میں بھوک مٹانے کے لئے ڈھابے بھی میسر ہیں جہاں خورو نوش کی اشیا مل جاتی ہیں، بڑی شاہراہوں پر ٹرک ہوٹلز بھی کھانوں میں اپنی پہچان آپ ہیں ذائقے ان کے بھی کمال ہیں، تفریحی مقامات پر ریستوران، ہوٹل بڑی نعمت اور سہولت ہے جس سے سیاح مستفید ہوتے ہیں۔

گھروں سے باہر کھانے کا کلچر تیزی سے اب فروغ پا رہا ہے، اہم وجہ سوشل میڈیا بھی ہے، بعض ہوٹلز وی لاگرز کی خدمات حاصل کرتے ہوئے مارکیٹنگ کرتے ہیں، پنجابی محاورہ ”منہ کھائے تے اکھ شرمائے“ وی لاگرز کی راہ میں حائل ہے وہ صارفین کوہوٹلز کی کوتاہیوں سے آگاہ نہیں کرتے۔

بنکوں نے بھی کھانوں کی ادائیگی بذریعہ کارڈ کرنے پر پیکیج متعارف کرائے ہیں، اب بچیاں اور بچے والدین کے بغیر بھی ہوٹلنگ کرتے، کھانوں کی زیادہ تعداد اور مقامات سے آگاہ ہیں۔

عوام الناس کو صاف، صحت مند کھانا فراہم کرنے کے لئے فوڈ اتھارٹیز بھی متحرک ہیں،اس کے باوجود مردہ جانوروں کے گوشت کی سپلائی، غیر معیاری گھی،آئل، مسالا جات، پنیر، دودھ کی شکایت کی بھی کمی نہیں، معیاری ہوٹلز میں یہ شکایت عام ہے کہ مٹن، بیف، مرغی کا گوشت جو کڑاہی میں استعمال ہوتا ہے اس کاتول کم ہی نہیں بلکہ ہر کھانے کی مقدار ہمیشہ کم رکھی جاتی ہے بازار میں پانی اور کولڈ ڈرنکس کی بوتل نجانے سُونے کے کس پانی سے نکل کر ریستوران، ہوٹل آتی ہے کہ گاہک کو اس کی پانچ گنا زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، وہ سستی روٹی جس کی دھوم ہرسو ہے اس کا اطلاق یہاں کیوں نہیں؟۔

جس قیمت پر چندتکہ بوٹی اور ریشمی کباب ملتے ہیں اس رقم کے عوض 3صحت مند مرغیاں مل جاتی ہیں، کھانے کے بل میں سروس چارج ”نہایت خوبصورت“ اضافہ ہے جس کی کوئی دلیل ہوٹل انتظامیہ کے پاس نہیں، ٹیکس کی مد میں رقم اس کے علاوہ لی جاتی ہے،ساری ”واردات“ میں کہیں بھی ایف بی آر کی ڈیوائس نظر نہیں آتی کم از کم گاہک کو یہ تسلی تو ہو کہ اس نے کھانے کا ٹیکس ادا کر کے اپنے خرچ پر ”عیاشی“ کی ہے۔ ہر دوکان، بنک پر بائیو میٹرک کی سہولت میسر آسکتی ہے تو ہر ہوٹل، ریستوران پر ایف بی آر کی ڈیوائس نصب کیوں نہیں ہوسکتی؟، خبر ہے کہ انڈین کنزیومر کورٹ نے کھانے کے تمام سروس چارجز ختم کرنے کا حکم دیا ہے،ہماری کنزیومر کورٹس کس گاہک کی منتظر ہیں کیا از خود نوٹس سے گاہکوں ریلیف نہیں مل سکتا؟۔

موٹر ویز اور شاہراہوں پر گاہک کے ساتھ نیا کھیل کھیلا جاتا ہے بس انتظامیہ کے فری کھانے کی قیمت مسافروں کو مہنگے کھانے کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے،بالخصوص لنک شاہرات پر یہ کام سینہ زوری سے کیا جاتا ہے۔ یہ بات سمجھنے سے صارف قاصرہے خام مال کی قیمت اگر کم ہوتی ہے تو کھانے کے نرخوں میں کمی کیوں نہیں آتی؟۔

ہر چند کہ فوڈ اتھارٹی مرکز اور صوبہ جات میں فعال ہے، پھر بھی صارفین غیر معیاری اور کم مقدار مگر مہنگا کھانے کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں، گلی، محلوں میں کھلے فوڈ پوائنٹس پر سستا کھانا بیماریوں کی آماجگاہ ہے، بالخصوص تفریحی مقامات کے فاسٹ فوڈز، ہوٹلوں میں ناقص گوشت کی سپلائی اب کوئی راز نہیں رہا ہے، اگر لاہور، کراچی جیسے شہر وں میں یہ ”خدمت“ انجام دی جاسکتی ہے، تو دور دراز علاقہ جات میں تو دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

عیدین اور تہواروں کے کھانے سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا، تفریحی مقامات پر عوام کو مگر کھانا پڑتا ہے، فوڈ اتھارٹی کے قیام کے بعد یہ تسلی تھی، خالص، سستا پورے ناپ تول کاکھانا ہوٹلوں میں میسر ہو گا، مگر یہ خواب ادھورا رہا، دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتیں فوڈ زچین ظاہر کرتی ہیں، سرکار کی انتظامی کمزوریوں سے کوئی تو فائدہ اٹھا رہا ہے۔

ارباب اختیار کو خالص، تازہ، لذیذ، صاف کھانا میسر آ جاتا ہے، جس کی قیمت بسا اوقات چاہنے والے ادا کرتے ہیں انھیں عوام کے لئے ہرگز پریشان ہونے کی ضرورت نہیں انھوں نے تو فوڈ اتھارٹیز بنا کر سکھ کا سانس لیا ہے، ہوٹلوں، ریستورانوں اور فوڈز پوائنٹس پر مہنگا کھانے کے بعد صارف کی حالت مرغ بسمل کی طرح ہوجاتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.