نریندر مودی نے مسلمانوں پر حملے جاری ر کھتے ہوئے بھارتی کرکٹ ٹیم میں مسلمانوں کے انتخاب کو روکنے اور بھارت میں پسماندہ طبقوں، قبائلیوں اور دلتوں کی ریزرویشن کو ختم کرنے کے لیے 400 نشستوں کا مطالبہ کیاہے۔
مدھیہ پردیش کے علاقے دھار میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے مودی نے کہاکہ کانگریس کا مقصد کھیلوں میں بھی اقلیتوں کو ترجیح دینا ہے۔ اب مذہب کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی کہ کرکٹ ٹیم میں کون ہوگا اور کون نہیں ہو گا۔ میں آج کانگریس سے پوچھتا ہوں، اگر وہ یہی چاہتی تھی تو انہوں نے 1947 میں بھارت کی آزادی کے بعد اسے تین ٹکڑوں میں کیوں تقسیم کیا؟ انہیں 1947میں ہی پورے ملک کو پاکستان بنا دینا چاہیے تھا اور اسی وقت بھارت کے تمام نشانات کو ختم کر دینا چاہیے تھا۔ میں آج صاف صاف کہہ رہا ہوں اور تمام کانگریسی اور ان جیسے لوگوں کو غور سے سننا چاہیے کہ جب تک مودی زندہ ہیں، وہ کسی کو جھوٹے سیکولرزم کے نام پر بھارت کی شناخت ختم کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
مودی نے مسلم دشمن بیانیے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ کانگریس رام مندر کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہیں 400سیٹوں کی ضرورت ہے تاکہ کانگریس ایودھیا میں مندر پر تالا لگانے یا جموں وکشمیر میں دفعہ 370 واپس لانے کے منصوبے میں کامیاب نہ ہو۔
مودی نے ایک بار پھر الزام لگایا کہ بھارت کو پاکستان کے اندر سے جہادکے خطرے کا سامنا ہے اوریہاں کانگریس لوگوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ مودی کے خلاف ووٹ ”جہاد“ کریں۔ مسلمانوں کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ ایک خاص مذہب کے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ متحد ہو کر مودی کے خلاف ووٹ دیں۔
بھارت کی کرکٹ ٹیم سے مسلمانوں کے اخراج کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ عرصہ قبل ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کپ کے دوران بھارتی ٹیم کی پاکستان سے تاریخی شکست کے بعد ہندوستانی لوگوں نے ٹیم میں شامل واحد مسلمان کھلاڑی محمد شامی کے خلاف آن لائن مہم شروع کردی۔ٹیم کی تاریخی شکست کے بعد جہاں بھارتی لوگ کھلاڑیوں پر برہم دکھائی دیئے، وہیں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی رپورٹس بھی سامنے آئیں جب کہ ٹیم میں شامل واحد مسلمان کھلاڑی محمد شامی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹیم میں کھیلنے والے باقی 10 کھلاڑیوں کو چھوڑ کر واحد مسلمان کھلاڑی محمد شامی کو آن لائن تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر مذہب کی بنیاد پر تنقید کرنے والے افراد میں زیادہ تر انتہاپسند ہندو شامل تھے۔ محمد شامی کو بلاجواز تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا گیا اور ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
چند سال قبل مہندر سنگھ دھونی کی قیادت میں ایک بار پھر ایک ایسی ون ڈے ٹیم کا اعلان کیا گیا جس میں نہ صرف یہ کہ کسی مسلم کھلاڑی کا سلیکشن نہیں کیا گیا بلکہ کسی مسلم کھلاڑی کے نام پر غور تک نہیں کیا گیا۔ ظہیر خان،محمد کیف، سید صبا کریم، وسیم جعفر، مناف پٹیل اورعرفان پٹھان طویل عرصہ تک قومی ٹیم میں نظر آتے رہے لیکن سوربھ گنگولی کا دور ختم ہوتے ہی ایسی باد مخالف چلی کہ مسلم کھلاڑیوں کا پتہ صاف ہونے لگا۔ مناف پٹیل، عرفان پٹھان اور ظہیر خان جیسے ایسے فاسٹ بولروں کا کیریئر قبل از وقت ختم کر دیا گیا جب وہ قومی ٹیم کی مزید خدمت کر سکتے تھے۔مناف پٹیل اور عرفان پٹھان کے نکالے جانے کے باوجود اپنی میچ وننگ بولنگ کی بدولت ظہیر خان تو پھر بھی قومی ٹیم کا لازمی حصہ بنے رہے۔ لیکن کب تک بنے رہتے۔ 2014ء کے دورہ نیوزی لینڈ کیلئے محمد شامی کو ٹیم میں شامل کیا گیا اور جیسے ہی وہ معیار پر پورا اترے سلیکٹروں نے ویلنگٹن ٹیسٹ میچ کو ہی جس میں محمد شامی نے پہلی اننگز میں چار اور دوسری اننگز میں 2 وکٹیں لی تھیں۔ میچ کو ظہیر خان کا الوداعی میچ بنا دیا حالانکہ اس میچ کی دوسری اننگز میں ظہیر خان نے پانچ وکٹ لی تھیں لیکن اس کے باوجود آئندہ سیریز کیلئے ظہیر خان کو قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا او راس کے بعد تو وہ انتظار ہی کرتے رہ گئے بلاوا نہیں آیا تو انہوں نے ریٹائرمنٹ کا ہی اعلان کر دیا۔وہ تو بھلا ہو غیر ملکی دورے کا جہاں فاسٹ بولنگ کارآمد ثابت ہوتی ہے۔
اس کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے میچوں کیلئے جن کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا گیا ان میں ایک بھی مسلم چہرہ نہیں تھا۔اگر محمد شامی کو آرام دینے کی غرض سے ون ڈے میچوں کی ٹیم سے باہر رکھا گیا تو مسلم کوٹے سے عرفان پٹھان اور ظہیر خان کے بعد بائیں ہاتھ کے فاسٹ بولر کی کمی دور کرنے کیلئے انڈر 19کے لیفٹ آرم فاسٹ بولر خلیل احمد کو اور انڈر 19 کے ہی ایک اور کامیاب فاسٹ اویس خان کو موقع دیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ نیو زی لینڈ کے خلاف ٹیم میں فاسٹ بولنگ کا شعبہ کافی کمزور ہے۔
تبصرے بند ہیں.