چند دن پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پولیس ٹریننگ کالج کی ایک تقریب میں شرکت کی۔ یہ غالبا ًپولیس کے محکمہ میں بھرتی ہونے والی خواتین اہلکاروں کے ٹریننگ کورس کے اختتام پر ایک پاسنگ آؤٹ پریڈ تھی۔ اس تقریب میں مریم نواز نے پولیس کی وردی زیب تن کر رکھی تھی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے پولیس اصلاحات اور خواتین کی خود مختاری سمیت کچھ اہم باتیں کیں۔ تاہم وہ سب کام کی باتیں تو ایک طرف رہ گئیں، البتہ مریم نواز کے پولیس یونیفارم کا خوب چرچا ہوا۔ کچھ لوگوں نے اس عمل کو سراہا بھی۔ تاہم ایک حلقے نے اس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں ہر چیز اور ہر بات پر طوفان اٹھانے کا رواج چل نکلا ہے۔ اس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ کچھ لوگوں کے پاس اس قدر فالتو وقت ہے کہ انہوں نے پولیس یونیفارم زیب تن کرنے پر طوفان بپا کر دیا۔ ایک صاحب نے تو مریم نواز کے خلاف مقدمے کی درخواست تک دائر کر دی۔ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کا ایک بیان میری نگاہ سے گزرا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پولیس کی وردی پہننا جرم ہے، پولیس یونیفارم پہننے کی قانون میں سزا ہے۔ مریم نواز کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔اس صورتحال میں محکمہ پولیس کو اپنے آفیشل پلیٹ فارم کے ذریعے یہ معلومات دینا پڑی کہ”پنجاب پولیس ڈریس ریگولیشنز“ کے مطابق پولیس اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے گورنر اور وزیر اعلیٰ پریڈ وغیرہ کے مواقع پر وردی پہن سکتے ہیں۔اس وضاحت کے باوجود اس معاملے پر یوں بات ہوتی رہی جیسے یہ ایک قومی ایشو ہے۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ قومی اسمبلی تک پہنچ گیا جہاں فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان نے وردی کی حرمت پر ایک پر مغز تقریر کر ڈالی۔ گویا اس ملک کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیں اور قومی اسمبلی میں بات کرنے کے لئے مریم نواز کی وردی کے علاوہ کوئی مسئلہ باقی نہیں بچا۔
میرا تعلق ابلاغیات کے شعبہ سے ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں تو ایک خاتون وزیر اعلیٰ نے پولیس کی وردی پہن کر خواتین پولیس اہلکاروں کیساتھ ایک علامتی اظہار یکجہتی اور اظہار وابستگی کیا۔ یا اسے محبت و شفقت یا عزت و احترام کا اظہار سمجھ لیجئے۔ کسی یونیفارم کو زیب تن کرنے کا عمومی مطلب اس وردی پر اظہار تفاخر یا اظہار محبت ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے بچے فوج سے اظہار محبت کی غرض سے فوجی لباس پہنتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمارے پنجابی سیاستدان سندھ جاتے ہیں تو سندھی اجرک اوڑھتے ہیں۔ سندھ یا پنجاب والے جب بلوچستان، یا گلگت بلتستان جاتے ہیں تو وہاں کا لباس، ٹوپی، پگڑی وغیرہ پہنتے ہیں۔ ابلاغیات کی زبان میں اس طرح کے gestures کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جن عوام یا شہریوں یا لوگوں کے گروہ سے آپ مخاطب ہوتے ہیں انہیں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم آپ میں سے ہیں اور آپ جیسے ہیں۔یہ بھی دیکھئے کہ ہمارے ہاں جب غیر ملکی مہمان خواتین آتی ہیںتو اکثر فرمائش کر کے شلوار قمیض کا تحفہ لیتی ہیں او ر یہ لباس پہنتی ہیں۔ یہ سب کسی نہ کسی طرح کا علامتی اظہار ہوتا ہے۔ سو مریم نواز کے پولیس یونیفارم کو بھی اس قسم کا اظہار ہی سمجھنا چاہیے تھا۔ لیکن ان کے مخالفین اور ناقدین لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ گئے۔ مجھے یقین ہے کہ مریم نواز کے اس gesture سے خواتین پولیس اہلکاروں کو فخر محسوس ہوا ہو گا کہ وزیر اعلیٰ نے بھی ان کی وردی پہنی ہے۔
پاکستان میں پولیس کے محکمے کا تاثر اچھا نہیں ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو یہ ادارہ منفی تاثر کا حامل ہے۔ اس محکمے کے بارے میں شکایتوں کے انبار لگتے رہتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کے رشوت ستانی کے بھی کئی قصے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے بہت سی شکایتیں یقینا جائز ہو ں گی۔ان شکایتوں سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کا کوئی بھرم باقی ہے، یا ٹریفک کا نظام چل رہا ہے یا ہم رات میں آرام سے سو جاتے ہیں تو اس میں اس ادارے کا عمل دخل ہے۔ گزشتہ کئی برس سے ہمیں دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے۔ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے جہاں ہمارے فوجی جوان نشانہ بنتے ہیں، وہاں آئے روز پولیس اہلکار بھی شہید ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اور ہمارا میڈیا پولیس اہلکاروں کی قربانیوں کا کم ہی ذکر کرتا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی کتنی سخت ہوتی ہے۔ بارش ہو، آندھی طوفان ہو، چلچلاتی دھوپ ہو، وہ بیچارے اپنی ڈیوٹی پر کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر ہم اکثر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب ان کی ڈیوٹی ختم ہوتی ہے تو وہ کسی سے لفٹ لینے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں اور مراعات بھی اتنی زیادہ نہیں ہیں۔ یہ متوسط زیریں طبقے کے لوگ ہیں۔ ان چھوٹے درجے کے اہلکاروں کی دل جوئی کے لئے یا ان کی حوصلہ افزائی کے لئے وزیر اعلیٰ نے اگر ان کا یونیفارم پہن لیا تو کیا کوئی گناہ کر دیا؟
پولیس وردی کو ہم بھلا کتنی عزت دیتے ہیں۔ ایک واقعہ بیان کرتی ہوں۔ چند سال پہلے میری ایک شاگرد تعلیم مکمل کرنے کے بعد پولیس میں بھرتی ہوگئی۔ وہ مجھ سے ملنے آئی تو برقع میں تھی۔ برقع کے نیچے وہ پولیس کی وردی پہنے ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا کہ برقع کب سے پہننا شروع کر دیا۔ کہنے لگی کہ دفتر آتے جاتے جب گلی محلے سے گزرتی ہوں تو لڑکے مجھے ”چھلڑ“ کہتے اور آوازیں کستے ہیں۔ وہ اس نے یونیفارم پر برقع اوڑھنا شروع کر دیا۔ ایک ایسے سماج میں خاتون و زیر اعلیٰ کا پولیس کی وردی پہننا پولیس کی عزت افزائی کے مترادف ہے۔ اسے آپ پولیس کی وردی کی image building مہم کا حصہ تصور کریں۔
اب ایک اور پہلو پر نگاہ ڈالئے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ اس قضیے میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پولیس کی وردی پہننے پر وہ لوگ تنقید کررہے ہیں، جو اپنے بچوں کے عید کے کپڑے قیدیوں جیسے بنواتے ہیں اور ان پر قیدی نمبر 804 لکھوا کر اظہار تفاخر کرتے ہیں۔ یا اپنے جوتے پر قیدی نمبر فلاں لکھوا کر سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ آج ان لوگوں کو پولیس وردی کی حرمت کی یاد ستا رہی ہے جو سیاسی احتجاج کے دوران پولیس کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیتے تھے۔ یا پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑ کر، انہیں مار مار کر لہو لہان کر دیا کرتے تھے۔ یا جو پولیس آفیسروں کو پھانسی دینے کے نعروں پر جھوم جایا کرتے تھے۔ 9 مئی کو بیسیوں پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے والوں کوبھی آج پولیس کی وردی کی عزت کا خیال آ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں ا س وقت پولیس کی وردی کی عزت کا خیال کیوں نہیں آیا تھا؟۔ خدارا، اس ملک پر رحم فرمائیں۔ اس ملک کے بہت سے مسائل ہیں۔ یہ ملک مسائلسلتا ن بن گیا ہے۔ ہر بات کو سیاست بازی کا نشانہ بنانے کی روایت ختم کیجئے۔ اب بھی اگر ہم نے لا یعنی باتوں پر وقت ضائع کرنا ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
تبصرے بند ہیں.