وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد زراعت کے حوالے سے ایک اہم اجلاس میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ”وہ اس تاثر کو ختم کرنا چا ہتی ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کی ہر حکومت میں کسان اور زراعت کی ترقی کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا ،وہ کسان اور زراعت کی ترقی کے لئے انقلابی کام کرنا چاہتی ہیں“۔ مجھے جب کسی نے یہ بتایا تھا تو میں بہت خوش ہوا کیونکہ میں صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کسان بھی ہوں مگر میری یہ خوشی اس وقت ہوا ہوگئی جب گندم کے کاشتکار کو مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ،پنجاب حکومت نے خود ہی گندم خریداری کے جس سرکاری نرخ کا اعلان کیا تھا اس پر عمل درآمد کرایا جا رہا ہے نہ ہی پنجاب حکومت خود گندم کی خریداری پر آمادہ نظر آ رہی ہے۔
وفاقی کمیٹی برائے ایگری کلچر کے اعلامیہ کے مطابق امسال گندم کی فصل کی پیداوار دو کروڑ 68 لاکھ ٹن رہنے کا تخمینہ ہے جو گزشتہ سال کی پیداوار سے 1.6 فیصد زائد ہے، گندم کی بمپر پیداوار یقیناً پروردگارِ عالم کی جانب سے انعام ہے کہ وہی رازق ہے لیکن اپنی ناقص اور خود غرضانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس انعام کو برباد کرنے پر تْلے ہوئے ہیں۔ جو منظر سامنے آ رہا ہے وہ نیا یا انوکھا نہیں ہے، جو کچھ ہو رہا ہے ایسا ہر سال دیکھنے اور سننے میں آتا ہے، ملک بھر میں گندم کی فصل پک کر تیار ہے اور اس کا کچھ حصہ کٹ کر منڈیوں میں پہنچنا شروع ہو گیا ہے لیکن باردانہ کی عدم دستیابی اور حکومت کی جانب سے مقرر کردہ امدادی قیمت سے کم نرخوں پر گندم کی فروخت نے کسانوں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے، وجہ یہ ہے کہ حکومت وعدے کے مطابق گندم کی خریداری کے لیے متحرک نہیں جس کا فائدہ مڈل مین اور ذخیرہ اندوز اٹھا رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہا تو خدشہ ہے کہ وافر پیدوار ہونے کے باوجود نہ تو آٹا سستا ہو سکے گا اور نہ ہی اگلے سال کسان اتنی گندم پیدا کرنے پر تیار ہو گا۔
اس بحران کا ذکر قانون ساز ایوانوں میں ہو تو رہا ہے لیکن اس مسئلے کا کوئی حل ابھی تک تلاش نہیں کیا جا سکا ہے، پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے فی من مقرر ہے لیکن کسانوں کا مؤقف ہے کہ حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری میں دلچسپی ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے انہیں اپنی پیداوار کھلی مارکیٹ میں فروخت کرنا پڑ رہی ہے اور وہاں انہیں پوری قیمت نہیں مل رہی ، کسان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مسائل پر توجہ نہ دی تو آئندہ سال وہ گندم کی کاشت نہیں کریں گے، اگر ایسا ہوا تو اس کے نتائج بھی سب پر واضح ہیں کہ کم پیداوار کی وجہ سے ہمیں بیرون ملک سے گندم پھر بھاری زر مبادلہ خرچ کر کے درآمد کرنا پڑے گی جس کے منفی اثرات براہ راست قومی خزانے پر پڑیں گے۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے کسانوں کو ایک بار پھر مافیا اور ذخیرہ اندوزوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور یہ کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
گندم کی بوائی کے وقت اس کے نرخ کم و بیش پانچ ہزار روپے فی من تک تھے، پھر حکومت نے گندم کی سرکاری قیمت 3900 روپے فی من مقرر کر دی اور اب کسانوں کو وہ ریٹ بھی نہیں مل رہے، کسانوں کا کہنا ہے انہیں فصل میں کھاد ڈالنا پڑتی ہے اور کئی بار پانی دینا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اخراجات کافی بڑھ جاتے ہیں لیکن جب فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے تو حکومت کی جانب سے اس کی خریداری پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے کسان اور کاشتکار شدید مالی نقصان اور ذہنی اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں امسال گندم کی شاندار فصل کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا آئندہ ہدف گندم کی ملکی ضرورت پوری کر کے پاکستان کو پھر سے گندم برآمد کرنے والا ملک بنانا ہے، گزشتہ روز وزیر اعظم کی جانب سے گندم کی خریداری کے حوالے سے بجا طور پر کچھ مناسب فیصلے کیے گئے ہیں، گندم کی خریداری کا ہدف بھی بڑھا دیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ پنجاب میں ان کے احکامات پر عمل ہو گا؟ ماضی میں کسان اور کاشت کار گندم کی برداشت کے بعد سرمایہ داروں ذخیرہ اندوزوں اور مڈل مینوں کی خود غرضیوں اور شعبدہ بازیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ہم بھارت کی بہت مثالیں پیش کرتے ہیں، وہاں بھی صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ گندم پیدا کی جاتی ہے، یہی صوبہ پورے ملک کی اجناس کی زیادہ تر ضروریات پوری کرتا ہے لیکن ایسا اس صورت میں ممکن ہوا ہے کہ وہاں کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے کسانوں کو سہولیات فراہم کر رکھی ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے سب سے پہلے تو کسان کو اچھی پیداوار والا سستا بیج دستیاب نہیں ہوتا، وہ مل جائے تو آبپاشی کے لیے پانی کی کمی آڑے آ جاتی ہے، زیر زمین پانی ٹیوب ویلوں کے ذریعے نکال کر آبپاشی کے لیے استعمال کرنا ایک مہنگا سودا ہے کیونکہ بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، کسان کسی نہ کسی طرح پانی کی ضرورت پوری کر لیں تو خالص کھاد کا کنٹرولڈ نرخوں پر حصول ممکن نہیں ہوتا، ذخیرہ اندوز مافیا کی وجہ سے کسانوں کو اکثر سرکاری نرخوں سے زیادہ قیمت ادا کر کے کھاد کا حصول ممکن بنانا پڑتا ہے۔
ساری مشکلات پر قابو پا کر کسان جب گندم یا کوئی دوسری فصل اگا لیتا ہے تو پھر اس کے لیے اس کی فروخت ایک مسئلہ بن جاتی ہے جیسا کہ ان دنوں گندم کی پیداوار اور فروخت کے حوالے سے ہو رہا ہے، حالات کس قدر دگرگوں ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وفاقی وزیر برائے صنعت اور پیداوار نے یوریا کھاد کی قیمت میں یک طرفہ طور پر اضافہ کیے جانے کی مذمت کی ہے اور تشویش کا اظہار کیا ہے حالانکہ کسی وزیر کا کام محض مذمت کرنا یا تشویش کا اظہار کرنا نہیں ہوتا بلکہ حکومتی پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوتا ہے، حکومت اگر کسانوں کو سستی کھاد فراہم کرنا چاہتی ہے تو اسے کسی فرٹیلائزر کمپنی کے سامنے بے بس نہیں ہونا چاہیے۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں، کیوں؟ جواب ہے حکومت کی جانب سے زرعی شعبے پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے، بہرحال ضروری ہو چکا ہے کہ پنجاب حکومت کسانوں اور کاشت کاروں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے خصوصاً حکومت اگر کسانوں سے گندم نہیں خریدے گی تو اس کا جواب کسان اگلے سال کم گندم پیدا کر کے دیں گے، حکومتی رویہ تبدیل نہ ہوا تو پہلے سے موجود یہ تاثر راسخ ہو جائے گا کہ جب بھی مسلم لیگ ن کی حکومت آتی ہے کسان رْل جاتے ہیں اور زرعی شعبہ بدحال ہو جاتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.