ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم ،امن و امان کے مسائل اور پھر سب سے بڑھ کر کسی بھی قانون، ضابطے اور آئین سے بالا تر کاموں کے لئے پولیس کے استعمال نے ان دنوں بہت زیادہ سوالات اٹھا دیے ہیں ،جن کا لب لباب یہ ہے کہ پولیس کے لئے کوئی ایسا چیک اینڈ بیلنس کا نظام لایا جائے جس کا مقصد انہیں کمزور کرنا نہیں بلکہ ان کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہو۔مجھے معاف کیجیے گا اور یہ کہنے دیں کہ اس وقت ہماری پویس قانون کی حکمرانی کی بجائے ہر حکومت وقت کی غلامی کو اپنا فخر سمجھ رہی ہے ،وقتی طور پر اپنے لئے مختلف مراعات کے حصول اور خوبصورت پولیس عمارتوں کے عوض پولیس نے عوامی تحفظ کا اپنا اصل مقصد گروی رکھ دیا ہے۔
کسی بھی ملک ، قوم یا معاشرے میں پولیس کی بنیادی ذمہ داری امن و امان کا قیام، عوام کے جان و مال کی حفاظت ،قوانین پر ان کے روح کے مطابق عمل درآمد یقینی بنانا ہوتا ہے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے اس ادارے اور اس سے وابستہ افراد کو مخصوص اختیارات تفویض کیے گئے ہوتے ہیں۔ یہ اختیارات پاکستان میں پولیس کے محکمے کو حاصل ہیں لیکن اکثر یہ مشاہدے میں آتا ہے کہ ان اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ اس ادارے میں چیک اینڈ بیلنس کے کسی موثر نظام کا موجود نہ ہونا ہے اور ایسے کسی نظام کے نہ ہونے کے نتیجے میں بعض اوقات پولیس اہلکار منفی سرگرمیوں میں ملوث ،جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی اور حکمرانوں کی جی حضوری میں مصروف ہو جاتے ہیں،ماضی کی کسی مثال کو چھوڑیں حال میں بھی پولیس یہی کام کر رہی ہے اور حالات یہی رہے تو اس کا مستقبل بھی یہی ہو گا۔
چیک اینڈ بیلنس کا اس وقت کوئی کارگر نظام نہ ہونے کے باعث پولیس افسران اور اہلکار یہ تصور کر لیتے ہیں کہ چونکہ ان کی کوئی باز پرس نہیں ہو سکتی اس لیے ہر طرح کی من مانی کی جا سکتی ہے، عام خیال یہ ہے کہ کرپٹ پولیس اہلکار اگر پکڑے بھی جائیں تو اپنے تعلقات استعمال کر کے سیٹوں پر بحال ہو جاتے ہیں اور اپنی منفی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں جس کے سبب جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ پولیس عوام کے جان و مال کے تحفظ میں بھی مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے جس کا ایک ثبوت سٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی شرح ہے، کراچی میں تو کوئی دن دہاڑے بھی سکون سے نہیں اور شاہراہوں ،گلیوں ،بازاروں ،چوراہوں پر لوگوں کو گن پوائنٹ پر لوٹا جا رہا ہے، لاہور کو بھی ایسا شہر قرار نہیں دیا جا سکتا کہ رات دس گیارہ بجے کے بعد کسی ویران سڑک یا علاقے سے گزرنا آسان ہو۔ پولیس کی کارکردگی پر آئے دن جس طرح سے سوالات اٹھ رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ ان پر توجہ دے اور اس محکمے میں چیک اینڈ بیلنس کا ایک ایسا نظام وضع کرے جس سے اس ادارے کی کارکردگی بہتر ہو جائے اور عوام کو بھی کچھ تحفظ محسوس ہو۔
پاکستان کا موجودہ پولیس نظام اس نظام سے ماخوذ ہے جو 1861ء میں برطانیہ نے اپنی اس نوآبادی یعنی برصغیر کے لیے وضع کیا تھا،وہ پولیس نظام الگ طرح کے انتظامی اور سیاسی حقائق کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا تھا جبکہ آج حالات ماضی کے حقائق سے یکسر مختلف ہیں، متعدد قومی اور بین الاقوامی ایکسپرٹ یہ نتیجہ اخذ کر چکے ہیں کہ نوآبادیاتی دور والا پولیس نظام اب بالکل قابل عمل نہیں رہا چنانچہ پاکستان میں پولیس کے نظام میں جامع اصلاحات کی اشد ضرورت ہے لیکن یہ کام پولیس نظام کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کرنا چاہیے۔ یہ ایک اچھی تجویز ہے کیونکہ اگر اصلاحات کا مسودہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار نہ کیا گیا تو سسٹم میں ویسی تبدیلی نہیں لائی جا سکے گی جیسی تبدیلی کا مجودہ دور زمانہ اور موجودہ حالات متقاضی ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ اصلاحات کیسی ہونی چاہئیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنا پولیس کی اولین ذمہ داری قرار دی جانی چاہیے اور طاقت یا اختیارات کے استعمال اور لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کے سلسلے میں ہونے والے تمام آپریشنز کے بارے میں پولیس کی سینئر قیادت کو جواب دے بنایا جانا چاہیے۔ فی زمانہ پولیس کو دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے جبکہ دہشت گرد جدید ترین اسلحے اور مواصلاتی آلات سے مسلح ہیں، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پولیس کو بھی جدید خطوط پر منظم آراستہ اور مسلح کیا جانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے، پولیس کے نظام میں اصلاحات لاتے ہوئے ملک کے عدالتی نظام اور معاشرے کے سیاسی سیاسی و سماجی آرڈر یعنی نظم یا ترتیب کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا تاکہ جو اصلاحات لائی جائیں ان کا نتیجہ پورے معاشرے میں بہتری کی صورت میں نکلے، پولیس کو سیاسی مذہبی لسانی اور نسلی تعصبات سے آزاد کرانا بھی ان اصلاحات کا اہم جزو ہونا چاہیے کیونکہ مشاہدے میں آتا ہے کہ یہ مختلف نوعیت کے تعصبات بھی پولیس کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اصلاحات وضع کرتے وقت ان ممالک کے پولیس سسٹمز کا گہرائی تک جائزہ لیا جائے جہاں ادارے یا محکمے کی کارکردگی سب سے اچھی ہے اور یہ سسٹم معاشرتی نظم لانے کے سلسلے میں ڈلیور کر رہا ہے۔
ماضی میں اصلاحات کی ضرورت کے پیش نظر پولیس نظام میں کچھ تبدیلیاں لائی جاتی رہیں ہیں جیسے 2002ء میں پرویز مشرف کے دور میں پولیس کا ایک الگ نظام لایا گیا تھا۔ اصلاحات کا ایجنڈا مرتب کرتے وقت مناسب ہوگا کہ ماضی کے ان چھوٹی بڑی ریفارمز کا بھی جائزہ لے لیا جائے اور ان کے جو نکات پولیس نظام میں بہتری لانے کا سبب بن سکتے ہیں ان کو اصلاحات کا حصہ بنایا جائے، سب سے اہم یہ ہے کہ پولیس کو عوام دوست بنایا جائے، فی الوقت ایسا نہیں ہے، عوام پولیس سے ڈرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس کو وسیع اختیارات حاصل ہیں اور وہ ان اختیارات کا جائز و ناجائز ہرطرح کا استعمال کرتی رہتی ہے، پولیس کو حاصل احتیارات پر نظر ثانی کرنا اور ان کو اعتدال پر لانا بھی پولیس ریفارمز کا حصہ ہونا چاہیے لیکن سب سے بڑھ کر وہی کہ پولیس میں چیک اینڈ بیلنس کا ایک ایسا نظام لایا جائے جو پولیس کی کارکردگی کو بالکل متاثر نہ کرے بلکہ کارکردگی بہتر بنائے اور جس سے اختیارات کا ناجائز استعمال ختم یا محدود ہو جائے۔ یہاں کوئی بھی ماورائے قانون کوئی قدم نہ اٹھا سکے اور اس کے سبھی اہلکار خود کو عوام کا خادم سمجھتے ہوئے انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
ایک وقت تھا جب ملک میں مجسٹریٹ اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی شکل میں پولیس پر چیک ہوتا تھا، 2002ء میں عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کی وجہ سے یہ چیک ختم ہو گیا اور پولیس ہر طرح سے آزاد ہو گئی، اس کے بعد پولیس گردی میں اضافہ ہوا اور پولیس کا ادارہ شتر بے مہار بن گیا مگر اب ضروری ہو چکا کہ پولیس پر چیک رکھا جائے اور وہ کسی کو جوابدہ ہو،وقتی طور پر اسے ڈی سی اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کو جوابدہ بنایا جا سکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.