ملٹی نیشنل کمپنی اَور ہمارے طالب علم

13

اِن دِنوں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت گردِش کررہی ہے جس میں دِکھایا گیا ہے کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے عہدے داران کراچی کے ایک نہایت مشہور اَور معزز تعلیمی اِدارے میں اَپنی کمپنی میں ملازمین کی بھرتی کے سلسلے ایک سیمینار کرنے گئے اَور طلباء نے پہلے فلسطین کے جھنڈے لہرائے اَور پھر سب مل کر ہال سے باہر نکل گئے اَور ملٹی نیشنل کمپنی کے عہدے داران منہ دیکھتے رہے گئے۔

اِس ویڈیو کو بہت سراہا جارہا ہے کہ ان طلباء نے بہت زبردست کام کیا۔ حالانکہ ذرا سی گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو یہ حرکت سوائے بدتمیزی کے اَور کچھ نہیں تھی۔ یہ حرکت یہ بتاتی ہے کہ اْ س تعلیمی اِدارے میں پڑھنے والے طلباء کی اَپنے گھروں اَور تعلیمی اِداروں میں کیا تربیت ہوئی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنی کے عہدے داران اس اِدارے میں خود سے نہیں کود پڑے ہوں گے۔ اْن کی طرف سے تعلیمی اِدارے کے نام ایک خط گیا ہوگا کہ ہم آپ کے طلباء کو اَپنے اِدارے میں نوکری دینا چاہتے ہیں۔ اْس تعلیمی اِدارے نے ہامی بھری ہوگی۔ ایک دِن اَور وقت طے پایا ہوگا۔ پھر تعلیمی اِدارے نے نوٹس بورڈ پر یہ اِعلان چسپاں کیا ہوگا کہ فلاں دِن، فلاں وقت پر فلاں کمپنی کے عہدے داران اِس مقصد کے لیے آرہے ہیں۔ فلاں جگہ پر ایک سیمینار ہوگا۔ جو طلباء اِس نوکری میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ مقررہ وقت پر وہاں پہنچ جائیں۔

اس کے بعد جو ہوا وہ نہ صرف ان طالب علموں کے لیے باعث شرم ہے بلکہ اس تعلیمی اِدارے کے نام پر بھی کالک ملنے کے مترادِف ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنی کے عہدے داران بہرحال اس تعلیمی اِدارے میں مہمان تھے۔ ہمارا دِین ہمیں سکھاتا ہے کہ مہمان کافر ہو، مشرک ہو، دہریہ ہو یا مسلمان ہو، سب کی عزت اَور اِحترام میزبان پر لازم ہے۔ ہم نے قرآنِ حکیم میں پڑھا ہے کہ دو فرشتے حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے گھر اِنسانی شکل میں وارِ د ہوئے۔ ان کا مقصد حضرت اِبراہیم علیہ السلام کو اَولاد یعنی حضرت اِسحاق علیہ السلام اَور ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی خوش خبری سنانا تھا۔ حضرت اِبراہیم علیہ السلام  نے ان سے نہیں پوچھا کہ تم کون ہو، کیوں آئے ہو،تمھارا مذہب کیا ہے، کہاں سے آئے ہو۔ حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے لیے وہ مہمان تھے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے ایک بچھڑا ذِبح کیا اَور اسے پکا کر مہمانوں کے حضور پیش فرما دِیا۔

ہمیں قرآن اَور ہمارا دِین یہ تعلیم دیتا ہے۔ یہ قصہ قرآن میں کیا صرف داستان سرائی کے لیے بیان ہوا ہے یا یہ ہمیں کچھ سکھانے، کچھ بتانے کے لیے آیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کے مطالعے سے یہ پتاچلتا ہے کہ مہمان کی عزت اَور تکریم بیحد اَہمیت کی حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی گھر آئے مہمان کی بے عزتی نہیں فرمائی۔ وہ جانی دشمن بھی ہوتا تب بھی اس کا اِکرام کیا جاتا۔ وہ دِین کا سخت مخالف بھی ہوتا تو اس سے مقابلہ میدانِ جنگ میں کیا جاتا، گھر میں مہمان کے طور پر آنے والے کی صرف مہمان نوازی کی جاتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رِوایت ہے کہ ایک بار ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آنے کی اِجازت طلب کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اْسے دیکھا تو فرمایا کہ یہ برا آدمی ہے۔ جب وہ اَندر آگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کشادہ روئی اَور خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا ”یا رسول اللہ! جب آپ نے اِس شخص کو دیکھا تھا تو اس کے بارے میں یہ اَور یہ فرمایا تھا۔ پھر آپ نے اس کے ساتھ کھل کر خندہ پیشانی سے کیوں ملے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اَے عائشہ! کیا تم نے کبھی مجھے بدزبانی کرتے دیکھا ہے؟ (یاد رکھو) روزِ قیامت اللہ کے نزدِیک بدترین شخص وہ ہوگا جس سے دْنیا والے اس کی طرف سے آزار پہنچنے کے ڈر سے ملنا چھوڑ دیں“ (بخاری)۔
جن طالب علموں نے یہ حرکت کی اْنہوں نے اَپنی طرف سے بہت زبردست اَور ثواب کا کام کیا تھا۔ انہوں نے اِسے فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ اِظہارِ یکجہتی اَور خاموش احتجاج کے خوبصورت نام دیے ہوں گے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے یہاں نوجوانوں کو اِسلام کے بنیادی اصول بھی نہیں پڑھائے اَور سکھائے جاتے۔ ہمارے تمام نظریات ہی غلط ہیں۔ ہمیں کچھ پتا نہیں کہ نیکی کیا ہے اَور بدی کیا۔ ہمیں بنیادی تمیز (etiquette) کا بھی علم نہیں ہے۔ ہم بدتمیزی کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔

اگر ہمارے دِل میں فلسطینی مسلمانوں کابہت درد ہے تو اس کے سلسلے میں کرنے والے بہت سارے کام ہیں جو ہم نہیں کررہے۔ اگر ہمیں یقین ہے کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنی والے اِسرائیل کے ایجنٹ ہیں تو ہم اْن کے دفتر کے سامنے جاکر پر امن مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اَپنی حکومت کو کہہ سکتے ہیں کہ اِن ایجنٹوں کو ملک سے باہر نکالا جائے۔ طلباء نوٹس پڑھ کر تعلیمی اِدارے کی اِنتظامیہ کو کہہ سکتے تھے کہ اِن لوگوں کو منع کردیں۔ ہم  نے یہاں نوکری نہیں کرنی۔ اِدارہ ایک مناسب جواب لکھ دیتا۔ لیکن چونکہ ہم  نے تب کچھ نہیں کیا جب ہمیں کرنا چاہیے تھا اَور ہم عیاشیوں میں مبتلا رہے، علم سے دور بھاگتے رہے، مزار، مساجد، محل اَور باغات بناتے رہے اَور غیروں نے ترقی کرلی تو اَب ہمیں بہت تکلیف ہورہی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ صرف تکلیف ہی ہو رہی ہے۔ ہم پھر بھی کچھ نہیں کررہے۔ ہم وہ کام نہیں کر رہے جن سے ہم طاقت ور بن سکیں۔ دنیا والوں کی نظروں میں ہماری عزت و وقار ہو۔ ہم کچھ کہیں تو اس کی دنیا میں کوئی وقعت ہو۔ ہم شور مچارہے ہیں، ماتم کررہے ہیں، دوسروں کو صلواتیں سنا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنی امریکی ہے اَور اِسرائیل کی پیدائش سے بہت پہلے معرضِ وجود میں آچکی تھی۔ لہٰذا اس پر اِسرائیلی ایجنٹ ہونے کا اِلزام نہیں لگایا جا سکتا۔
ہمارا دِین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کیسے ہی حالات ہوں، وقار، تمیز، حسن اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ مدینہ منورہ میں جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی گئی اَور ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک یہ افواہیں گردِش کرتی رہیں تب بھی کسی مسلمان نے حسن خلق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ مدینہ منورہ کی گلیوں میں گالم گلوچ نہیں ہوا تھا۔ کسی کو ایک تنکا بھی نہیں مارا گیا تھا حالانکہ مسلمان اْس وقت ایک بہت بڑی طاقت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی، جو اس بہتان کا بانی تھا، کے مرنے پر اْ س کے کفن کے لیے اَپنا کرتا مبارک عطاء فرما دیا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان لوگوں کے ساتھ کیا رویہ تھا جنھوں نے مسلمانوں کو بدترین جسمانی اَور ذہنی اذیتیں دی تھیں؟ وہ لوگ دِین اِسلام کے بدترین دشمن تھے اَور اِس کے خلاف برسوں سازشیں کرتے رہے تھے۔ ہم نے اِن واقعات سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ ہم  نے قرآن اَور سنت سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ ہمارا وجود سوائے اَپنے دِین کی بے عزتی کے اَور کچھ نہیں ہے۔

اِس بات کی بھی بیحد ضرورت ہے کہ ہمارے تعلیمی اِدارے اَپنے طالب علموں کو صرف کتابیں نہ پڑھائیں، کچھ تربیت بھی کریں۔ انہیں بنیادی اخلاق سکھائیں، انہیں بتائیں کہ کون سا رویہ درست ہے اَور کون سا غلط۔ ایک مہذب معاشرے میں اِنسان کس طرح رہتے ہیں۔ اِتنے مشہور اَور معزز تعلیمی اِدارے کے طلباء کے اخلاق کا اگر یہ حال ہے تو اِس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں طالب علموں کی سوچ نہیں بنائی جاتی۔ وہاں صرف کتابیں رٹائی جاتی ہیں۔ اساتذہ اَور طلباء کا آپس میں کوئی تعلق، کوئی رِشتہ نہیں ہے۔ اگر اساتذہ کے خیال میں طلباء نے جو کیا وہ بالکل درست تھا تو پھر تو واقعی ماتم کرنے کا مقام ہے۔

اگر ہم غیروں کے رویوں اَور اَعمال سے اَپنے رویے طے کرتے رہے تو یہ کام تو جانور بھی کرلیتا ہے۔ آپ کسی کتے کو ہڈی ڈالیں گے تو وہ آپ کے قدموں میں لوٹے گا۔ اسے دھتکاریں گے تو وہ آپ پر بھونکے گا۔ اِنسان اَور جانور میں بہت فرق ہے۔ اَور ایک عام اِنسان اَور مومن میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔ مومن اخلاق کے اْس بلند معیار پر کھڑا ہوتا ہے جہاں عام لوگ اسے سر اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ آج کا مسلمان اْس معیار پر چلا گیا ہے کہ لوگ اسے اَپنے پیروں میں تلاش کرتے ہیں۔ خدا کے لیے اِسلام اَور پاکستان کی مزید بے عزتی نہ کرائیں۔ اگر کچھ کرنا ہے تو وہ یہ ہے کہ طاقت ور بنیں، اچھے اَور عمدہ اخلاق پیدا کریں اَور ساری دنیا کے لیے ایک نمونہ بنیں۔

تبصرے بند ہیں.