نوجوان نسل کا زوال پذیر کردار

126

 

کہنے کو ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کہ پچھلے دس پندرہ سالوں میں نا تو یہ اسلامی رہ گیا ہے اور نا ہی جمہوری۔ ہمارا معاشرہ جو کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پہ قائم ہے اس میں بے راہ روی ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو ہر روز آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک واقعہ ملے گا جو آپ کے رونگٹے کھڑے کرنے اور آپ کی نیند حرام کرنے کے لئے کافی ہو گا۔ بالخصوص نوجوان نسل تو اسلام اور معاشرتی اقدار سے ہزاروں کوس دور نظر آتی ہے۔
آئیے اب ان وجوہات کا احاطہ کرتے ہیں جو اس ضمن میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں۔
نوجوان نسل کی اکثریت مذہب سے دور جا چکی ہے کیونکہ وہ اسے ترقی پسند سوچ اور مادر پدر آزاد معاشرے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ آج کے دور کے جدید آلات نے ان کو مغربی بے راہ روی سے روشناس کروا دیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اب نئی نسل کی اکثریت سے شرم و حیا کا تعلق ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ کئی مسلمان ممالک میں جنسی بے راہ روی کی عالمی ویب سائٹس پہ پابندی ہے۔ اور وہاں کی حکومتیں نئی نسل کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ جس میں پہلا عمل موبائل نیٹ ورک کمپنیوں کو پابند کرنا ہے کہ وہ اپنے نیٹ ورکس میں ایکٹو فلٹر لگائیں کہ کوئی ایسی فحش ویب
سائیٹس کو کھول ہی نا پائے۔ اور جو کھولنے کی کوشش کرے اسے وارننگ ملے کہ اس کا ڈیٹا لاء انفورسمنٹ ایجنسی کو دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسکولوں اور کالجوں میں کردار کو اعلیٰ و پاکیزہ رکھنے کیلئے اسلامی تعلیمات پہ خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی نسل کے کردار میں سب سے بڑی اور پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کل کی ماؤں نے اپنا یہ کردار کیوں کم یا پھر بالکل ختم کر دیا ہے؟ سچ تو یہ ہے آجکل کی ماوں نے بھی اپنے اس کردار سے چشم پوشی اختیار کر لی ہے انہوں نے اپنے بچوں کی کردار سازی، انہیں ابتدائی ایام میں پیغمبروں اور مشاہیر کے سبق آموز واقعات بتانے، سنانے اور اچھے برے کی تمیز سمجھانے کی بجائے اپنا زیادہ وقت واہیات ٹی وی ڈراموں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پہ گزارنا مناسب سمجھ رکھا ہے۔ نتیجتاً ماں کی گود جو ماضی میں ہر گھر میں ایک قیمتی، اہم درسگاہ تھی اب یہ درسگاہیں ویران ہو چکی ہیں۔
ماں باپ کے بعد نئی نسل کی کردار سازی میں انتہائی اہم کردار اساتذہ کا تھا کہ جو ماں کی کردار سازی کی کوشش کو ایک درجہ اور آگے بڑھاتے تھے۔ پرانے اساتذہ نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچنے اور اسلاف کے نقش قدم پہ چلنے کی تلقین کرتے تھے۔ لیکن بد قسمتی سے موجودہ دور کے اساتذہ نے تعلیمی درسگاہوں کو اپنی پسند نا پسند کی بنیاد پہ سیاسی اکھاڑے اور تعلیم کو بزنس بنا کر کردار سازی کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے نکال باہر کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ کردار سازی کی بجائے اب روشن خیالی کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ کردار سازی کے عمل میں انہیں خود رول ماڈل کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور جہاں تعلیم کی فراہمی پرائیویٹ ٹیوشن و دیگر کئی صورتوں میں ایک بزنس بن چکی ہو وہاں کون رزق حلال کمانے کی بات کریگا یا سوچ ہی رکھے گا؟
کہا جاتا ہے کہ قوموں اور ملکوں کا عروج و زوال نوجوان نسل کی تربیت اور کامیابی پہ منحصر ہوتا ہے لیکن نئی نسل کے موجودہ حالات دیکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سخت تشویش ہے۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوء۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اس طرف فوری توجہ دیں۔ اور اسکولوں، کالجوں میں سیاست کو ختم کر کے نوجوان نسل کی کیریکٹر بلڈنگ کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اس ضمن میں فوری اور عملی اقدامات اٹھائیں۔ اسی طرح والدین کو بھی سوچنا ہو گا کہ وہ اپنی اگلی نسل باحیا، باکردار اور پڑھی لکھی چاہتے ہیں یا مادر پدر آزاد، روشن خیال اور راہ راست سے بھٹکی ہوئی۔ جس دن انٹرنیٹ کی خرافات کو بند کروا دیا گیا، جس دن ماں کی گود اور اساتذہ کا کردار بہتر ہو گیا۔ اس دن آنے والی نسل اپنے خاندانوں سمیت پاکستان کے لئے قابل فخر ثابت ہو گی۔ سو سب کو سوچنا چاہئے کیونکہ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.