غزہ پر حملے اور دنیا کی بے حسی

52

غزہ پر ہونے والی جارحیت سے ثابت ہو گیا ہے کہ کمزور کوجب چاہیں طاقتور کچل سکتے ہیں جس سے انھیں کوئی روک نہیں سکتا گزشتہ برس سات اکتوبر سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں کو چھ ماہ ہوچکے ہیں لیکن اسرائیل کی وحشیانہ بمباری روکنے میں دنیاابھی تک ناکام ہے کہنے کو یواین اوموجود ہے جو کمزور اقوام کی بقا و سلامتی کی ضامن ہے مگرکئی دہائیوں سے ثابت ہوا ہے کہ جب فلسطین کی بات آئے تو یہ اِدارہ بے بس ولاچار نظر آتا ہے دراصل پانچ عالمی طاقتوں کے پاس ویٹو پاور مسائل میں اضافے کا موجب ہے کیونکہ جب بھی اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد پاس ہونے لگتی ہے تو امریکہ ویٹو سے بے اثربنادیتا ہے برطانیہ بھی اِس حد تک جانبدار ہے کہ مظلوم کی طرفداری کی بجائے اُس کا وزیرِ اعظم رشی سوناک نہ صرف ہتھیارو گولہ بارود سے بھرا طیارہ لے کر اسرائیل جاتا ہے بلکہ ڈھٹائی و بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصویر بنواتااورپھر عالمی میڈیامیں شائع کراتا ہے اس تناظرمیں جب یہ طاقتیں امن کے دعوے کرتی ہیں تو کم ہی لوگ اعتبارکرتے ہیں غزہ اور یوکرین معاملے پر امریکہ و مغرب کا رویہ مختلف ہے اگرہر جارحیت پر دہرے معیار کی بجائے ایک اور دوٹوک موقف اختیار کرتیں تونہ صرف آج غزہ لہولہونہ ہوتابلکہ یوکرین میں بھی امن بحال ہوچکا ہوتا۔
چھ ماہ سے غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک34 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں تیرہ ہزار بچے ہیں لیکن دنیا کی بے حسی ختم ہونے میں نہیں آرہی سربراہ عالمی اِدارہ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں اتنی بڑی تعدادمیں بچوں کی اموات تمام انسانیت پر دھبہ ہیں اسی اِدارے کی غزہ میں کام کرنے والی ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ الشفا ہسپتال اب محض کھوکھلی عمارت ہے کیونکہ جہاں زخمیوں کا علاج کیا جاتا تھا وہاں اب قبریں اور عمارت کا ملبہ ہے ہسپتال کی جگہ ہر طرف دل دہلا دینے والے مناظر ہیں بعض لاشوں کے ہاتھ پاؤں زمین سے باہر ہیں لاشوں کے سڑنے اور بدبو کا منظر ہولناک ہے لیکن اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کااب بھی کہنا ہے کہ ہم فتح سے ایک قدم دوری پر ہیں اور یہ کہ قیدی رہا کیے جانے تک جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہو گا اسرائیل کے مظالم دراصل دنیا کے دہرے معیار کی طرف اشارہ ہے اگر ابتدامیں ہی جارحیت پر تمام اقوام یک آواز ہوتیں تو آج غزہ یوں خاک و خون میں نہ نہایا ہوتا اور انسانیت ایسے نہ سسک رہی ہوتی۔
غزہ میں کوئی جنگ نہیں ہورہی بلکہ نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو ننگی جارحیت کا سامنا ہے ایک طرف لڑاکا طیارے بم برسا رہے ہیں جبکہ پناہ کی تلاش میں نکلنے والے بے گھروں کوزمینی فوج نشانہ بنا رہی ہے جس سے امدادی کارکن،صحافی اور اقوامِ متحدہ کے اہلکار تک کوئی بھی محفوظ نہیں فلسطینی مردوں،عورتوں،بچوں،بیمار وں اور زخمیوں کو بے دریغ نشانہ بنایا جارہا ہے ہر طرف بھوک و افلاس کے مناظر ہیں ایسی تباہی دنیا میں کسی لڑائی کے دوران نہیں دیکھی گئی عرب میڈیا اعتراف کرتا ہے کہ غزہ میں جاری یکطرفہ جارحیت 21ویں صدی کی سب سے زیادہ تباہ کُن جنگ ہے ساٹھ فیصد رہائشی عمارتیں،نوے فیصد سکول ملیا میٹ ہوچکے 36
ہسپتالوں میں سے صرف دس جزوی طورپر کام کرنے والوں کی ادویات اور دیگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کارکردگی نہ ہونے کے برابرہے اسرائیل نے بنیادی شہری انفراسٹرکچر تباہ کر دیا ہے خوراک و پانی سمیت تمام بنیادی ضروریات کی شدید قلت ہے جس سے بارہ لاکھ فلسطینی شہریوں کو خوراک کے عدمِ تحفظ کا خطرہ بڑھتا جارہاہے۔
اسرائیل کی یکطرفہ جارحیت کے خلاف دنیاکے تمام ممالک میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جارحیت کی بے جاحمایت پر صدر بائیڈن غیر مقبول ہوچکے جس کی وجہ سے رواں برس پانچ نومبر کو منعقدہونے والے صدارتی انتخاب میں اُن کی دوبارہ کامیابی کا امکان کم ہوتاجارہا ہے اندرونِ اسرائیل نیتن یاہوکی بھی مخالفت بڑھ رہی ہے اور لوگ اپنی حکومت سے حملے روکنے اور قیدیوں کی رہائی کا پُرزورمطالبہ کررہے ہیں اِس دوران پولیس سے جھڑپیں تک ہونے لگی ہیں لیکن ہٹ دھرم اور جنونی صیہونی حکومت حملے روکنے پر آمادہ نہیں فضائی کے ساتھ زمینی حملوں میں شدت لارہی ہے اِس دوران آگ لگانے والے کلسٹر بم برسائے جارہے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ بے سروسامان مظلوم فلسطینیوں پر دوایٹم بموں جتنی تباہی کرنے والا گولہ بارود برسایا جا چکا ہے اِس کے باوجود اِسے جنگ کہنابدترین جانبداری ہے دنیا کے غریب ترین علاقے غزہ پر جارحیت کو چھ ماہ ہو چکے اِس دوران مغویوں کی رہائی کے لیے بمباری میں کم ہی وقفہ آیایہاں تک کے رمضان میں بھی غزہ پر گولہ و بارود برستا رہا اب جبکہ ایک بارپھر سیز فائر کے لیے مصرمیں ازسرے نو مذاکرات ہو رہے ہیں جس کے لیے اسرائیل اور حماس دونوں نے اپنے نمائندے بھیجنے کی تصدیق کر دی ہے سوال یہ ہے کہ عید کے ایام میں امن ہو گا یہ مذاکرات تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب عالمی طاقتیں جارحیت ختم کرنے میں سنجیدہ ہوں وگرنہ جس طرح اسرائیل کو ہلہ شیری دی جاری ہے اور عرب ممالک بھی فلسطینیوں کی مشکلات سے لاتعلق ہیں خدشہ ہے کہ غزہ رہائشی علاقہ نہیں محض قبرستان بن سکتاہے موجودہ جارحیت کے موجب ایران کی خاموشی بھی افسوسناک ہے کاش او آئی سی فعال ہو اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں زوردار آواز بلندکرے تاکہ امن بحال ہو۔
سات اکتوبر کے حماس حملے اورشہریوں کو مغوی بنانے کے اقدام پر اسرائیل کا غصہ سارے غزہ کو کھنڈر بنانے ہزاروں کو مارنے اور لاکھوں افراد کوبے گھرکرنے کے باوجود کم نہیں ہورہا مگرکیا وجہ ہے کہ وہ ابھی تک حماس کی عسکری طاقت ختم کرنے اور اپنے شہریوں کو رہا کرانے میں ہے؟ جبکہ اُس کی فوج جدید ترین لڑاکا ہتھیاروں سے لیس ہے علاوہ ازیں حماس کے زیرِ زمین نیٹ ورک کو بھی نہیں توڑ سکاحالانکہ اِس دوران امریکہ تمام وسائل کے ساتھ پشتیان اور غزہ آبادی کومحصور کرنے،بھوک سے مارنے،طبی عملے کو نشانہ بناکرزخمیوں کو لاعلاج رکھنے میں بھی ساتھی ہے؟وجہ یہ ہے کہ اُس کا مطمع نظر صرف فلسطینیوں کی نسل کشی اور انسانیت کش اقدامات ہیں لیکن جنگی جرائم سے وہ دنیا میں اپنے لیے خطرات کی شدت میں اضافہ کررہا ہے اسرائیلی کاروائیاں مسلمانوں کے خلاف اعلانیہ جنگ ہیں جن سے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے اقدامات ناکامی سے دوچارہوسکتے ہیں جس کااقوامِ عالم کو جلد ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے مسلہ فلسطین کا دوریاستی حل ناگزیر ہے لیکن امریکہ اور برطانیہ امن کی بجائے مشرقِ وسطیٰ کو اسرائیلی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں مسلہ فلسطین کو بگاڑنے میں مرحوم یاسر عرفات اور اُن کی تنظیم پی ایل او سمیت حماس کسی طور بری الزمہ نہیں یاسر عرفات پوری زندگی بھارت پر مہربان رہے اور مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے کے لیے اُس کی معاونت کرتے رہے اب تو یہ منصہ شہودپر آچکا کہ اسرائیل کو گولہ بارود اور ڈرون فراہم کرنے میں نہ صرف بھارت پیش پیش ہے بلکہ دونوں ممالک قریبی اتحادی ہیں حماس بھی سات اکتوبر کو حملہ نہ کرتی تو آج 19لاکھ یعنی غزہ کی اسی فیصد آبادی بے گھر نہ ہوچکی ہوتی جن میں سے پندرہ لاکھ تو مصرکی سرحد کے قریب رفح شہر میں محصور ہیں آمدہ اطلاعات کے مطابق شمالی غزہ میں بھی پانی اور غذائی قلت سے قحط کے حالات جنم لے چکے ہیں جن میں مئی کے دوران مزید شدت کا خدشہ ہے غزہ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی شہادتوں کے علاوہ ہزاروں افراد جن میں خواتین،بچے اور نوجوان شامل ہیں لاپتہ نہ ہوتے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اسرائیل کی طرح فلسطینی پی ایل او اور حماس کے اہداف کا بھی ادراک کریں اور ایسی قیادت آگے لائیں جو صیح معنوں میں فلسطینی مفاد کے لیے کام کرے۔

تبصرے بند ہیں.