خواتین کے لئے طالبان کا اسلام

47

افغان خواتین کا شمار ان بدقسمت صنف نازک میں ہوتا ہے جنہوں نے مردوں کی جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے، کیمونزم نظام کا نفاذ ہو، سرد جنگ کا عہد ہو،یا اسلامی امارت کا وجود ہو ایندھن انھیں ہی بننا پڑا ہے،یہ وہ سرزمین ہے جو صدیوں سے بیرونی طاقتوں کی گذر گاہ رہی، ہر قزاق اور راہزن نے ہندوستان پر حملہ کے لئے اِسی ملک کا انتخاب کیا، پانی پت کی لڑائی سے لے کر طالبان کے اقتدار تک اگر کوئی طبقہ تختہ مشق بنا ہے تو وہ افغانی خواتین ہیں، جنہوں نے قبائلی فرسودہ رسومات کے آگے سر نگوں بھی کیا ہے، بیرونی جارحیت کو روکنے اور اچھے مستقبل کے لئے اپنے بھائی، بیٹے، شوہر تک قربان کئے ہیں، مگر کیمونزم ان کے دکھوں کا مداوا کر سکا نہ ہی اما رات اسلامیہ میں انہیں چین نصیب ہے۔ جب طالبان کی لیڈر شپ قطر میں امریکہ سے مذاکرات کر رہی تھی تو ان کا لب و لہجہ کچھ اور تھا، قیادت نے عالمی اداروں بالخصوص خواتین کے حقوق کے حوالہ سے جو یقین دہانی کرائی اور وعدے وعید کئے تھے وہ وفا نہیں ہوئے ،طالبان قیادت نے 180 ڈگری کا یو ٹرن لیا ہے، قوم کی بیٹیوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے ہیں،ان کاحکم نامہ2021 سے نافذالعمل ہے،تاہم طالبان نے سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلہ کی محدوداجازت دی ہے، افغانستان کے آئین 1964 اور 2004 کے آرٹیکل 22 کے تحت خواتین کو باضابطہ طور پر برابری کے حقوق میسر ہیں جونوے کی دہائی میں سلب کئے گئے تھے۔

طالبان کے ایک کلیدی راہنما اور نائب وزیر خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ لڑکیوں پر تعلیمی پابندی سے افغانی شہریوں نے عبوری حکومت سے فاصلے بڑھا لئے ہیں،انہوں نے بھی چھٹی جماعت سے آگے تعلیمی ادارے کھولنے پر زور دیا اور کہا کہ علم کے بغیر معاشرہ تاریک ہے، تعلیم ان کا فطری حق ہے ،اگر کوئی چھینتا ہے تو یہ افغان عوام اور طالبات پر ظلم کے مترادف ہے۔ البتہ طالبان کے قبضہ سے پہلے گریجویشن کرنے والی طالبات کو میڈیکل تعلیم شروع کرنے کی اجازت اور محکمہ صحت میں ملازمت کی سہولت دی گئی ہے۔ہومن رائٹس واچ کے مطابق محکمہ صحت میں پہلے ہی تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز کی شدید کمی ہے، اگر طالبان نے بچیوں کو سکول اور جامعات میں جانے کی اجازت نہ دی تو تیس لاکھ طالبات اس فیصلہ سے متاثر ہوں گی۔طالبان کا موقف ہے کہ سرکار کے دینی مدارس میں تعلیم کے لئے والدین بچیاں بھیجیں جبکہ والدین کا نقطہ نظر ہے کہ وہاں عصر حاضر کے علوم کے مطابق تعلیم نہیں دی جارہی ہے۔افغانستان کے علماء کرام نے بھی تعلیمی پابندی کے فیصلہ کو ناپسند کیا ہے۔

عالمی برادری کے رد عمل اور او آئی سی کے مطالبہ کے باوجود طالبات پر پابندی پر طالبان کے ذمہ داران کا موقف ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالہ سے تعلیمی اداروں اور جامعات میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں ،اس کے بعد اجازت دیئے جانے کے امکانات ہیں، مگر تاحال اس بابت کوئی بڑی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی ہے۔افغانستان میں بیوگان کی تعداد لاکھوں میں ہے، جن کی اوسط عمریں 35 سال کے قریب ہے، ان کے ناتواں کندھوں پر چار چار بچوں کی کفالت کا بوجھ بھی ہے،ملازمت کی صورت میں اگر کوئی خاتون گھر کا بوجھ اٹھا رہی تھی ،خواتین کو سرکاری ملازمتوں ، این جی اوزسے نکال باہر کرنے کے بعد متاثرہ خاندان اس نعمت سے محروم ہیں،گھر بیٹھے اگر انہیں ملازمت کا معاوضہ مل بھی رہا تو بہت کم ہے،ایک تو بیوگان کی بڑی تعداد بیروزگار ہے ،جبکہ افغانستان کی اکانومی کا زیادہ انحصار عالمی امداد پر بھی ہے، ان حالات میں قریباً ملک کی نصف آبادی کو قومی ترقی کے عمل ہی سے باہر رکھنا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔
نجانے طالبان خواتین کے لئے کس اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں، تاریخ اسلام میں 300 صحابیات کا ذکر ملتا ہے جنکی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارکردگی مثالی رہی ہے، صنعت و حرفت ہو،تجارت ہو ،میدان جنگ ہو، خواتین کا کردار مثالی رہا۔ قرآن کی تعلیم و تدر یس کے مطابق جو انھوں نے کمایا اس میں ان کا حصہ ہے، اُم عمارہؓ نبی مہربانؐ کی سکیورٹی پر مامور رہی ہیں، حضرت خنساؓ معروف شاعرہ تھیں میدان جنگ مجاہدین کے حوصلہ بڑھانے اسلام کی سر بلندی کے لئے اشعار کہتی تھیں، شہدا کی مرہم پٹی کرنا، میتوں کو میدان جنگ سے واپس خواتین ہی لاتی تھیں، حضرت زینبؓ کو صنعت و تجارت میں عبور حاصل تھا، ہجرت حبشہ اور مدینہ میں خواتین بھی مردوں کے ساتھ تھیں، اُس دور میں ان پر تعلیم کے دروازے بند نہ تھے، یہ وہی قرآن سیکھتی تھیں جس میں دنیا کو مسخر کرنے کی ترغیب ہے۔ طالبان نے یہ کیسے اخذ کیا ہے کہ فی زمانہ دور جدید کے علوم کے دروازے خواتین پر بند کرنے سے شریعت محفوظ ہو گی؟ اللہ تعالیٰ نے افغان سرزمین کو قدرتی وسائل سے نوازا ہے استفادہ تب ہی ممکن ہے جب خواتین مَردو ںکے شانہ بشا نہ اجتماعی کاوش کریں گی۔

تاریخ کا سبق ہے کہ نصف آبادی کو نظر اندازکرتے ہوئے معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا اگر ناممکن نہیں تو کٹھن ضرور ہے، اس خطہ میں بنگلہ دیش کا ماڈل موجود ہے، کپاس کی عدم موجودگی کے باوجود گارمنٹس کی صنعت میں لازوال ترقی کی ہے، چین کے بعد سب سے بڑی ایکسپورٹ اسکی ہے جس میں کلیدی کردار خواتین نے اداکیا ہے، ملک کی تہذیب اور روایات کے مطابق خواتین کو کام کرنے سے کون روک سکتا ہے، اگرطالبان اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ تعلیم کے بغیر خواتین ریاست پر بوجھ نہیں ہوںگی تو آپ حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔

انتظامی طور پر طالبان کو حق حاصل ہے کہ ایسے تعلیمی ادارے بنائیں مخلوط تعلیم سے آزاد ہوں، ان میں جدید نصاب کے ساتھ اخلاقی تربیت کا اعلیٰ انتظام ہو، گلوبل ولیج میںآپ خواتین کو ان پڑھ رکھ بھی لیں گے تو کیا انھیں نجی اور سرکاری امورکے لئے دفاتر، تعلیمی اداروں، بنکس،سفارت خانوں میں جانا نہیںپڑے گا؟ بالخصوص وہ بیوگان جو بے سہارا ہیں، ضروریات زندگی کے لئے خواتین کو بہرحال گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنا ہی پڑتا ہے اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ خواتین کو مردوں سے واسطہ نہیں پڑے گا تو پھر آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ امارات اسلامیہ کا نام دینا کافی نہیں اسلامی ریاست کی جھلک نظر بھی آنی چاہئے۔ عدل و انصاف بلا امتیاز تعلیم و تدریس، اعلیٰ اخلاق، اُصول پسندی سماجی اور معاشی مساوات اسلام کے اوصاف حمیدہ ہیں ماضی کی طرح خواتین کے لئے ایسا دین اسلام طالبان پیش نہ کریں جس کی بھاری قیمت ملکی خواتین ہی کو ادا کرنا پڑے۔

تبصرے بند ہیں.