بھارت سے تجارت، کشمیر سے مزاق

77

گزشتہ ہفتہ میں نے لکھا تھا کہ پی ٹی آئی از خود اپنی دشمن ہے، اسکی پالیسیاں، قلابازیاں اسے خودنقصان پہنچا رہی ہیں، پی ٹی آئی کا وکلاء کا قبضہ گروپ مفاہمت کی بات کرتا ہے، مگر مجبور ہوجاتا ہے جب جیل سے پیغام آتا ہے کہ گنڈہ پور وزیر اعلی ہونگیں، مراد سعید جو پاکستان کا قرضہ پی ٹی آئی حکومت آنے پر آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے کا دعوی کرتے تھے، سینٹ کیلئے امیدوار نامزد کئے جاتے ہیں تو مفاہمتی گروپ ایک دوسرے کی شکل دیکھتا رہ جاتا ہے اب وکلاء گروپ بھی آپس میں دست و گریباں ہے ایسے میں شیر افضل خان مروت بھی اللہ کی دین ہے،اور انہیں گمان ہے کہ وہ کپتان کی جگہ لینگے، کپتان بھی ماشااللہ جو ملنے جاتا ہے اسے اتنا بھر دیتے ہیں کہ وہ باہر آ کر اپنے آپ کو پارٹی کا چیئرمین سمجھ بیٹھتا ہے گو کہ یہ جماعت اب بس ہی ہے۔۔۔۔۔۔چونکہ انکے بہادر دلیر جو ملک سے باہر بیٹھ کر پاکستان اور عسکری اداروں و اشخاص کے خلاف زہریلہ سوشل میڈیا کی سرپرستی یا اسے خود چلارہے ہیں، ملک میں دھمکیوں کی سیاست کے بعد امریکی رکن ڈونلڈ لو کے سچ بولنے پر اس کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈا کر رہے ہیں بلکہ اسے اور اسکے خاندان کو جان سے بھی مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، پی ٹی آئی کی پاکستان میں تمام تر منفی سیاست، ملک دشمن حرکتوں کے بعد ہمارا قانون نام نہاد آزادی اظہارکے نام پر انکے خلاف کچھ نہ کر سکا، مگر اب وہی ملک جو آزادی اظہار کا داعی ہے امریکہ میں ان حرکتوں کی وجہ سے اس جماعت کے خلاف کاروائی کرنے میں دیر نہیں کرے گا جس سے پی ٹی آئی کو اشد مالی نقصان ہوگا۔ اب نظارہ کریں موجودہ حکومت جو اتحادی حکومت ہی ہے، پی پی پی بڑی اتحادی ہے، پی پی پی جس طرح کا اتحاد کرتی ہے اسکا نظارہ کرنا کو ئی مشکل نہیں، آئینی عہدے ان کے پاس ہیں، بہت جلد وہ مرکز میں وزارتیں بھی لینگے اور اختلاف ہونا کوئی انہونی بات نہیں، پی پی پی سے مسلم لیگ ن ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ دھوکہ کھا چکی ہے مگر ”ایک بار پھر دیکھتے ہیں“ کی پالیسی پر چلتے ہوئے اتحاد ہوجاتا ہے یا کرادیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست اب کسی یک جماعتی حکومت ایک خوا ب بن چکی ہے یہ ہی خرابی ہے چونکہ سیات میں روا داری ختم ہے اور یہ صرف رہ گیا ہے کہ ملک کی بہتری کیلئے تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوں۔ موجودہ حکومت کو پاکستان میں جہاں ایک صفحہ پر ہونا چاہئے وہاں بھرپور انداز میں ہیں اور انشااللہ اسی وجہ سے لگتا ہے کہ معاملات چل پڑینگے اسکے علاوہ اب کوئی طریقہ بھی نظر نہیں آتا بڑا مسئلہ معیشت کا ہے جسے وزیر خزانہ کی عقل و دانش سہارا دیتی ہے، بد قسمتی سے پاکستان کی کسی بھی سیای جماعت کے پاس اسکا کوئی رکن اس قابل نہیں کہ وہ یہ وزارت بخوبی چلا سکے، دراصل اربوں کا بوجھ ذہنی عقل کو ختم کردیتا ہے پاکستان کی معیشت دو اور دو چار کی گنتی سے بہت دور ہے اسلئے چاہے پی پی پی کادور ہو یا پی ٹی آئی یا مسلم لیگ ن انکے بڑے رہنماء اسد عمر، اسحق ڈار اس وزارت میں ناکام ہی رہے ہیں اسلئے ہر حکومت کو آئی ایم ایف کے منظور شدہ معیشت دانوں بیرونی ملک سے خدمات لینا پڑتی ہیں جو بظاہر پاکستان کی خدمت کرتے ہیں مگر دراصل وہ آئی ایم ایف کے دئے گئے قرضے کی واپسی کے طریقہ کار پر کام کرتے ہیں، ہم بغلیں بجاتے ہیں کہ ہمیں اربو ں ڈالر قرض مل گیا اور معیشت درستگی کی طرف جارہی ہے، نہ جانے یہ کس دیوانے کا نعرہ ہے، معیشت درستگی کی طرف جاتی ہے اور روز مرہ زندگی کی اشیاء، گیس، پیٹرول سستا ہو، ہم قرض لیکر ساتھ ہیں نوید دیتے ہیں کہ گیس، پیٹرول، ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔بیرون ملک سے مستعار لئے گئے وزیر خزانہ کی طاقت کسی بھی وزیر اعظم سے زیادہ ہوتی ہے اسکا مظاہر ہ حال ہی میں ہوا جب Economic Coordination Committee جو ملک کے مالی معاملات پر پالیساں مرتب کرنے کا ادارہ ہے، وزیر اعظم پاکستان اسکے سربراہ ہوتے ہیں اس حکومت میں بھی ایسا ہی تھا مگر اچانک یہ سربراہی بیرون ملک سے لائے گئے وزیر خزانہ اورنگ زیب کے حوالے ہوگیا۔اس حوالگی سے قبل وزیر خزانہ اورنگ زیب اور وزیر اعظم کی ملاقات ہوئی، نیز اس اقتصادی رابطہ کمیٹی سے اسحق ڈارکی قابلیت دیکھتے ہوئے انہیں ہٹا دیا گیا۔ شائد اسکی وجہ مسلم لیگ ن مین اسحاق ڈار کی قربت تھی کہ اسحاق ڈار کی ناکام پالیساں یا وزیر اعظم کو انکے مشورے اس کمیٹی میں اثر انداز نہ ہوں۔ مسلم لیگ ن خاص طور جب بھی اقتدار میں آتی ہے اسکی توانائیاں بھارت سے تجارت کرنے پر خرچ ہو جاتی ہیں یہ حال صرف مسلم لیگ ن کا نہیں پی پی پی کا بھی ہے اول تو بھارت سے کسی بھی قسم کی قریبی رغبت تحریک آزادی کشمیر کے مجاہدین کو سخت تکلیف دیتی ہے اور خاص طور پر پاکستان کی رغبت جس پر کشمیری مجاہدین تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ پاکستان دنیا بھر میں ہماری آواز پہنچا رہا ہے وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں کہا ہے اور جو حقیقت ہے کہ جنکی معیشت مضبوط ہو دنیا اسکی سنتی ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت سے ہماری معیشت کسی مضبوطی کی طرف نہیں بلکہ تحریک آزادی کشمیر کو نقصان پہنچائے گی، ہم بھارت کو کیا فروخت کرینگے؟؟؟ ہم بھارت سے درآمد ہی کرینگے، ڈالرز کمانے کیلئے ہمارے تاجر بھی کوشاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ بھارت سے درآمدات شروع ہوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات 2019ء میں معطل ہوئے تھے اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کا سوچ رہے ہین ہماری وزار ت خارجہ دنیا میں مسئلہ کشمیر پر کچھ نہیں کرپارہی اور وزیر خارجہ بھارتی معیشت کے فروغ کیلئے اس سے تجارت بحال کرنے کی بات کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ کایہ بیان لگتا ہے پڑوسی ملک کے خلاف سفارتی موقف میں ممکنہ تبدیلی کا اشارہ ہے۔

انہوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے نقدی کی کمی کا شکار پاکستانی تاجر برادری کی بے تابی کو اجاگر کیا۔ پاکستانی تاجر چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع ہو، ہماری تجارت یا تعلقات کی بحالی کیلئے ہماری جانب سے آرٹیکل 370، جموں و کشمیر، کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کی روک تھام کی کوئی شرط نہیں ہے، ہمارے ان مطالبات کو بھارت ہمیشہ رد کرتا رہا ہے اور کہتاہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے پورے مرکز کے زیر انتظام علاقے ملک کے اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصے ہیں۔ جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے میں ترقی اور گڈ گورننس بھارت کے اندرونی معاملات ہیں۔ بھارت جواب میں پاکستان پر الزام بھی عائد کرتا ہے کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی کراتا ہے، ایسے بے ایمان ملک اور قیادت سے کیا ہی تجارت اورکیا ہی مذاکرات۔

تبصرے بند ہیں.