خیبرپختونخوا کے بڑے صاحب فرما رہے ہیں کہ مجھے شکایت نہ کریں کہ فلاں رشوت مانگ رہا ہے، رشوت مانگنے والے افسر کے سر پر اینٹ مارو اور میرا نام لو، عوام رشوت مانگنے والے کا سر پھاڑ دیں۔ عوام غیرت کریں اور رشوت خور کو موقع پر سزا دیں۔ رشوت مانگنے والے کے سر پر اینٹ مار کر اس کے بیٹے کو کہو آپ کے والد کو جہنم سے بچایا ہے۔ صاحب کی بات سو فیصد ٹھیک اور گلہ بجا لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کس کس کے سر پھاڑیں گے اور کس کس کو جہنم سے بچائیں گے۔ حکمران اگر خود اپنی پالیسیوں، اقدامات اور طور طریقوں سے ہر صاحب اختیار کو رشوت اور کمیشن کے ایک نہیں ہزار مواقع دے کر جہنم کی طرف دھکیلیں گے تو پھر بے چارے عوام بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کو آخر کیسے جہنم سے بچائیں گے؟ ہم تو پہلے ہی چیختے اور چلاتے رہے کہ کرپشن پر ہزار بار لعنت بھیجنے والی پی ٹی آئی کی حکومت میں کرپشن کم اور ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے مگر افسوس اس وقت اس طرف کسی نے کوئی توجہ نہیں دی بلکہ دنیا گواہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سابقہ ادوار میں جس کا جتنا وس اور بس چلا اس نے اتنا ہی کرپشن و کمیشن کی بہتی گنگا میں ہاتھوں کے ساتھ اپنا منہ بھی دھویا۔ اسی وجہ سے تواب تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت کو یہ ماننا اور کہنا پڑا کہ پی ٹی آئی کے سابق دور میں بہت کرپشن ہو رہی تھی، لوگ ارب پتی نہیں کھرب پتی بن گئے۔ جب حکمران خود کرپشن اور کمیشن کے نئے نئے در کھولیں گے تو پھر لوگ واقعی ارب پتی ہی نہیں بلکہ کھرب پتی بھی بنیں گے۔ بڑے صاحب کے کرپشن، کمیشن اور رشوت کے خلاف سیدھا سادہ موقف اور آواز بلند کرنا اچھی بات لیکن کرپٹ افسران، کمیشن مافیا اور رشوت خوروں کو جہنم سے بچانے کے لئے جہاد کا آغاز صاحب کو خود کرنا ہو گا۔ جب تک حکومت کرپشن اور کمیشن کے خاتمے کے لئے کرپشن و کمیشن کا ایک ایک در بند نہیں کرے گی تب تک عوام کی جانب سے رشوت خوروں کے سر پھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے بغیر عوام افسر نہیں افسروں کے سر پھاڑ کر بھی کرپشن و کمیشن کے دربند نہیں کر سکتے نہ ہی حکومتی تعاون کے بغیرعوام کسی راشی افسرکوجہنم سے بچا سکتے ہیں۔ راشی افسروں کو جہنم میں چھلانگ لگانے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ بہتی گنگا کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ جہاں گلی گلی میں دسترخوان بچائے جاتے ہیں اورلنگرخانے کھولے جاتے ہیں وہاں پھر ان دسترخوانوں اور لنگرخانوں سے غریب لوگ مستفید ہوں یا نہ۔ لیکن حرام کی کمائی پرپلنے والے رشوت خوراپنے پیٹ ضرور بھرتے ہیں۔ اسی طرح صحت انصاف کارڈ کا نظام بھی جب سرکاری ہسپتالوں سے زیادہ من پسند پرائیویٹ ہسپتالوں کے حوالے کیا جاتا ہو تو پھر وہاں غیروں کو کیا؟ بہت سے اپنوں کوبھی کرپشن و کمیشن کے ذریعے جہنم جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ عوامی دستر خوان، لنگرخانے اورصحت انصاف کارڈ پی ٹی آئی حکومت کے اچھے اورتاریخی کارنامے واقدامات ضرورہیں کہ ان منصوبوں کابراہ راست غریب عوام کو فائدہ ہے اور ان منصوبوں سے ہزاروں نہیں لاکھوں غریب لوگ مستفید ہو رہے ہیں لیکن ہمیں یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ چیک اینڈ بیلنس اور موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے ایسے منصوبوں کے ذریعے کرپشن و کمیشن کے نئے نئے دربھی کھلتے ہیں۔ جہاں عوامی فلاح کے ایسے منصوبوں کے ٹھیکے بھی اپنوں اورمن پسند افراد کو دیئے جاتے ہوں وہاں پھر کرپشن، کمیشن اوررشوت کا سلسلہ نہ کم ہوتا ہے اورنہ ہی ختم بلکہ یہ پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جایا کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کے سابق ادوارمیں تو وزیروں اورمشیروں کے رشتہ دار کیا۔؟ عام عہدیداروں کے مامے چاچے بھی سب ٹھیکیدار بن گئے تھے۔ جہاں حکومتی سرپرستی میں ایسے ٹھیکوں سے اپنوں کو نوازا جاتا ہو وہاں پھر یہ کہنا اور سمجھنا کہ عوام رشوت خوروں کے سر پھاڑ کر کرپشن اور کمیشن کا خاتمہ کر دیں گے یہ خام خالی کے سوا کچھ نہیں۔ خیبر پختونخوا کو کرپشن وکمیشن سے پاک کرنے کے لئے عوام کو نہیں بلکہ خود حکومت کو راشی افسران اورکرپٹ و کمیشن خور افسروں و سیاستدانوں کے سر پھاڑنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ جب تک حکومت خود بہتی گنگا کی طرف بڑھنے والے ہاتھ نہیں کاٹتی اور انہیں طاقت سے نہیں روکتی تب تک کرپشن فری خیبر پختونخوا کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور صوبائی حکومت اگر واقعی صوبے کو کرپشن و کمیشن سے پاک کر کے مثالی صوبہ بنانے میں مخلص ہے تو پھر انہیں عوام کوراشی افسران کے سرپھاڑنے کی تعلیم دینے اور سبق پڑھانے سے پہلے خود کرپشن و کمیشن کے ایک ایک در اور سوراخ کو بند کرنا ہو گا۔ جب تک کرپشن و کمیشن کی طرف جانے والے راستے سخت قانون سازی اور منظم مانیٹرنگ کے ذریعے بند نہیں کئے جاتے تب تک عوام کی جانب سے راشی افسروں کے سر اور گریبان پھاڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ شیر افضل مروت کی طرح پی ٹی آئی کے ہر کارکن، عہدیدار اور حکومتی ذمہ دار کو یہ ماننا پڑے گا کہ تحریک انصاف کے سابقہ دونوں ادوار میں خیبر پختونخوا کے اندر کرپشن اور کمیشن میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ کرپٹ، راشی اور کمیشن خور اہلکار، افسران اور سیاستدان تب ہی سر اٹھاتے ہیں جب انہیں حکومت کی طرف سے کوئی در کھلا ملتا ہے۔ حکومت کی جانب سے اگر کرپشن کے سارے دربند ہوں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی افسر اور سیاستدان جہنم جانے کی کوشش کرے۔ لوگوں کوجہنم سے بچانا عوام سے زیادہ حکمرانوں کا کام ہے اس لئے حکمران ثواب کا ہر کام عوام سے نہ کرائیں بلکہ خودبھی کچھ کر لیا کریں۔
تبصرے بند ہیں.