ویسے تو وطن عزیز کا ہر ہر شعبہ بہت بری طرح سے کرپشن کے نرغے میں آ چکا ہے لیکن اگر اس معاملہ کی سرداری دینی ہو تو وہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے سر جائے گی۔ صورتحال بگڑتے بگڑتے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب سیاست میں کرپشن کوئی معیوب یا اچنبے والی بات معلوم ہی نہیں ہوتی سیاستدانوں اور بیوروکریسی میں کسی اور چیز کامعیار بڑھا ہو یا نہ بڑھا ہو لیکن کرپشن ضرور اپنی انتہاوں کو چھو رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب تو نچلے درجے کے سیاستدان بھی اربوں روپے کی کرپشن کے دعویدار ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں مختلف طبقات کے لائف سٹائل میں خلیج اس قدر زیادہ ہے ایک طرف توبے روزگاری کی انتہا ہے، اگر کسی کے پاس نوکری ہے بھی تو تنخواہ اتنی کم ہیں کہ بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور ماں باپ خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ بڑے بڑے اور مہنگے ترین شاپنگ مال لوگوں سے کھچاکھچ بھرے ہوئے ہیں، پرتعیش ہوٹلوں میں اس قدر رش ہے کہ ایڈوانس بکنگ نہ کروائی ہو تو بیٹھنے کی جگہ نہ ملے۔سڑک پر گزرنے والی ہر تیسری گاڑی کی مالیت کروڑوں میں ہے۔ویسے تو لوٹ مار کے اس ماحول میں ہر کسی کو کھلی چھٹی ہے لیکن پھر بھی اس معاملہ میں بھی بڑی حد تک طبقاتی تقسیم بھی حائل ہے،اگر نچلے درجے کا کوئی شہری اس کا مرتکب پایا جائے بہت جلد پکڑ میں بھی آ جاتا ہے اور سزا کا مستحق بھی ٹہرتا ہے۔لیکن بات جب بڑے مگر مچھوں کی آتی ہے تو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتیں یا احتساب کے عمل کو یقینی بنانے والے ادارے ایک ہلکا سا ٹھمکا لگا دیتے ہیں جس سے ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور یہ تاثر زائل کرنے میں مدد ملتی ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔
ویسے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام ہی سیاستدان چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہویا بیوروکریٹ چاہے ان کی پوسٹنگ کہیں بھی ہو ان کا قبلہ ایک ہی ہے اور ان کا ایمان کرپشن ہے۔ شائد یہی وجہ ہے حکومت چاہے پاکستان پیپلز پارٹی کی ہو، پاکستان مسلم لیگ کی، پاکستان تحریک انصاف کی یا پھر ملک میں آمریت کا نفاذ ہوعام آدمی کے حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ سوائے مسند اقتدار کے حصول کے ہماری تمام ہی سیاسی پارٹیوں میں نہ تو کوئی اختلاف ہے نہ ان میں کوئی جنگ ہے۔ اسمبلیوں کے فلور پریا ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولنے والے دراصل ایک ڈرامہ کا کردار نبھا رہے ہوتے ہیں۔ جونہی ڈرامہ کا وقت ختم ہوتا ہے یہ لوگ آپس میں شیروشکر ہو جاتے ہیں، خوش گپیاں لگاتے ہیں اور مشترکہ طور پر زندگی کی آسائشوں سے لطف انداوز ہوتے ہیں۔
ویسے تو یہ تجویز کافی پرانی ہے لیکن الیکشن 2024 کے بعد اس بات پر کافی زور دیا جا رہا ہے کہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام ہی سیاسی جماعتوں کو کسی نہ کسی حد تک مل کر کام کرنا چاہیے۔بظاہر تو یہ تجویز خاصی معقول محسوس ہوتی ہے لیکن اس قسم کی تجویز دینے والوں کو یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ کہ ان پارٹیوں کو کن مقاصد کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے؟ اگر تو یہ اتحاد ملکی ترقی، معیشت کے استحکام اور عوام کی خدمت اور بہبود کے لیے ہو تو کیا ہی بات ہے لیکن صد افسوس کہ اس قسم کا کوئی کام ان پارٹیوں کے ایجنڈے میں تو دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذا عوامی خدمت اور بہبود کو تو مکمل طور پر خارج از امکان قرار دینا غلط نہ ہو گا۔ رہی بات کرپشن، بد عنوانی اور لوٹ مار کی تو ان کاموں کے لیے اس قسم کے اتحاد کی بھرپور افادیت ہو سکتی ہے۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ احتساب کے ادارے توبری طرح مصلحت کا شکار ہو چکے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کو ہدف تنقید بنا کر دباو میں لانے کا گربھی ہماری تمام ہی سیاسی پارٹیوں کو اچھی طرح آ چکا ہے اور اگر مخالف سیاسی پاٹیوں کا خوف بھی ختم ہو جائے تو بس پھر ڈر کاہے کا۔ رہی بات عوام کی تو انہیں بے وقوف بنانا تو شائد دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ چار سال تک عوام کے مسائل سے بے خبر ہو کر خوب ڈٹ کر کرپشن کرو لوٹ مار کے نئے ریکارڈ بناو اور پھر پانچویں سال الیکشن کے موقع پر جھوٹے وعدوں کا دانا ان بھولے پرندوں جنہیں ہم عوام کہتے ہیں کے سامنے ڈالو، یقینا یہ ایک مرتبہ پھر یہ دھوکا دہی کا دانا چگ لیں گے اور اگلے پانچ سال پھر سے موجیں ہی موجیں۔
اگرچہ سیاستدانوں کا طریقہ واردات تو نورا کشتی کرنا ہی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ یہ لوگ کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے کے مخالف ہی رہیں کیونکہ صرف اسی صورت میں عوام کو کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
تما م ہی سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کی باتوں پر تمام محب وطن حلقوں کے کان کھڑے ہو جانے چاہیں اور انہیں اس بیان کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ اگر تو یہ تجویز خلوص نیت سے دی جا رہی ہے تب تو ٹھیک ہے لیکن اگر اس کا مقصد پورے ملک میں کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مارکے نئے اور محفوظ راستے کھولنا ہے تو اس کے سد باب کے لیے ابھی سے اقدامات ہونے چاہیں۔
سیاسی قیادت کو بھی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس قو م کو ایک حد تک ہی لوٹا جا سکے گا اور یقینا ان کی برداشت بھی ایک حد تک ہی ہو گی۔ یہ سیاسی پارٹیاں علیحدہ علیحدہ یا مل جل کر جو ظلم، زیادتیاں اور ناانصافیاں کرچکی ہیں یا کرنے کے عزائم رکھتی ہیں آج نہیں تو کل عوام کی عدالت میں نہیں تو اللہ کی عدالت میں انہیں اس کا جواب اور حساب دینا ہی پڑے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.