پنجاب میں تبادلے اور گورننس

60

پنجاب کی دھی رانی، وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف سے پنجاب کے لوگوں کی بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں، وہ سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کی بیٹی اور موجودہ وزیر اعظم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبا ز شریف کی بھتیجی ہیں، مسلم لیگ (ن) کے دونوں راہنماؤں کا عوامی سٹائل اور انداز حکمرانی ایک دوسرے سے نہیں ملتا،اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ مریم نواز کس کا سٹائل اپناتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف عوام کے پسندیدہ اور میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے ہیں۔ ابھی مریم نواز شریف کی وزارت اعلیٰ کے ابتدائی ایام ہیں، اس لئے ان کے سٹائل اور انداز حکمرانی کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا، ان پر فوری طور پر تنقید کرنے کی بجائے انہیں مارجن دینا چاہئے اور دیکھنا ہو گا کہ وہ اگلے تین ماہ کے دوران کیسا پرفارم کرتی ہیں۔

ابھی تک ان کی باتوں اور کاموں سے لگتا ہے کہ وہ لوگوں کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہیں اور وہ اس کا عملی اظہار بھی کر رہی ہیں، اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ابھی تک شاہد ہی وہ آرام سے بیٹھی ہوں، وہ ایسے ایسے غریب لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کا حال احوال دریافت کر نے جا پہنچی ہیں،جن کے پاس انہیں بٹھانے کے لئے کوئی مناسب جگہ یا کرسی تک موجود نہیں تھی، یہ ایک اچھی بات ہے، دوسری طرف آٹے اور راشن کے تھیلوں پر میاں نواز شریف کی تصویروں پر لوگ اعتراض اور تنقید بھی کر رہے ہیں، مگر اس رمضان پیکج میں وزیر اعلیٰ کی دلچسپی ظاہر کرتی ہے کہ وہ عام آدمی کو ریلیف دینا چاہتی ہیں۔ میڈم وزیر اعلیٰ کے سامنے، عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ صوبے کی سطح پر ایسے وہ تمام اقدامات اٹھانا بھی ضروری ہیں جس سے ایک اچھی حکومت سامنے آئے یا گڈ گورننس قائم ہو سکے اور یہ سب کچھ ایک اچھی بیوروکریٹک ٹیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ان کے حلف اٹھانے کے بعد بتایا گیا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر افسروں کی تبدیلیاں کرنے کی بجائے تین ماہ تک ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں گی، جو افسر اچھے نتائج دے گا اسے رکھیں گی اور کام نہ کرنے والے کو تبدیل کر کے ان کی جگہ پر نئے افسروں کو تعینات کریں گی، اس کے ساتھ ہی انہوں نے تقر و تبادلوں پر پابندی لگانے کا حکم بھی جاری کر دیا تھا، مگر اس آرڈر کے چند دن بعد ہی بڑے پیمانے پر پوسٹنگ، ٹرانسفر کے احکامات جاری کر دئے گئے ہیں۔ حالیہ پوسٹنگ آرڈر کے مطابق چیئرمین پی اینڈ ڈی افتخار ساہو کو تبدیل کر کے ایک بار پھر سیکرٹری محکمہ زراعت لگا دیا گیا ہے،نگران حکومت میں جن چند افسروں نے بہترین کام کیا تھا افتخار ساہو ان میں سر فہرست ہیں،وہ محنتی،دیانت دار، رزلٹ دینے والے نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو افسر ہیں، زراعت بھی ایک بڑا اور اہم محکمہ ہے، امید کی جا رہی ہے کہ وہ یہاں بھی اچھے رزلٹس دیں گے، ایک بات اچھی یہ رہی کہ بیرسٹر نبیل اعوان کو ان کی جگہ نیا چیئرمین پی اینڈ ڈی لگایا گیا ہے وہ بھی انتہائی محنتی اور قابل افسر ہیں، انہوں نے اس سے قبل میاں نواز شریف کے ساتھ بھی کام کیا ہے اس لئے وہ شریف حکومت کی ترجیحات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ایک اور اچھے اور محنتی افسر کیپٹن اسد اللہ کو سیکرٹری ہاؤسنگ لگایا گیا ہے، وہ ایک انتہائی نفیس اور ماتحت نواز افسر ہیں، ان کے ساتھ جو نیئر افسر کام کرنا ایک اعزاز سمجھتے ہیں، کیپٹن نور الامین مینگل کو پنجاب کا ہوم سیکرٹری لگایا گیا ہے، وہ قبل ازیں چیف کمشنر اسلام آباد،متعدد محکموں میں سیکرٹری اور کمشنر بھی رہے ہیں، بہت محنتی، غریب پرور اور رزلٹ دینے والے گو گیٹر افسر ہیں،اس پوسٹ کے لئے انتہائی موذوں ہیں۔معظم سپراکو سیکرٹری فوڈ، دانش افضال کو سیکرٹری وزیر اعلیٰ آفس،مظفر سیال کو سیکرٹری سپورٹس لگانا بھی اچھا فیصلہ ہے،تینوں محنتی افسر ہیں۔ ڈاکٹر آصف طفیل کو سیکرٹری پی اینڈ ڈی لگایا گیا ہے، اچھے افسر ہونے کے ساتھ ساتھ چیئرمین پی اینڈ ڈی بیرسٹر نبیل اعوان کی چوائس بھی ہیں۔

صوبائی سروس کی لاٹ میں سے زمان وٹو کو بورڈ آف ریونیو میں ممبر ٹیکسز لگا کر ضائع کیا گیا ہے وہ بڑے شاندار افسر اور فیلڈ ماسٹر ہیں انہوں نے پنجاب میں سیکرٹری فوڈ اور کین کمشنر کی حیثیت سے مافیا کے سامنے بند باندھ دیا تھا، اسی مافیا کی وجہ سے وہ او ایس ڈی بنے اور اب ایک کھڈے لائن پوسٹ پر لگائے گئے ہیں، قبل ازیں وہ فیلڈ میں بھی اچھے رزلٹس دے چکے ہیں، انہیں کسی اچھے محکمے کا سیکرٹری یا کسی ڈویژن میں کمشنر لگایا جاتا تو اس سے حکومت اور عوام کا فائدہ یقینی تھا۔جاوید اختر محمود کو سیکرٹری اوقاف لگایا گیا ہے، وہ ایک تجربہ کار افسر ہیں دو، ڈویژنوں میں کمشنر اور ایک بڑے محکمہ ہائر ایجوکیشن کو سیکرٹری کی حیثیت میں کامیاب طریقے سے چلا چکے ہیں، انہیں کوئی بڑا محکمہ دیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔ محکمہ اوقاف کے سینئر موسٹ افسر طاہر رضا بخاری جو پچھلے ایک سال سے اس محکمہ کو سیکرٹری کی حیثیت سے کامیابی سے چلا رہے تھے انہیں وہاں سے ہٹا کر ڈی جی اوقاف لگا دیا گیا ہے، جو ایک اچھے افسر کے ساتھ زیادتی ہے، بہتر تھا کہ انہیں کسی دوسرے محکمہ میں گریڈ بیس کی پوسٹ پر لگا دیا جاتا جو سیکرٹری رینک کی ہوتی۔ڈاکٹر محمد شعیب اکبر سینئر اور تجربہ کار افسر ہیں، پرنسپل سیکرٹری وزیر اعلیٰ بھی رہے انہیں ایک غیر اہم پوسٹ پر سیکرٹری ایم پی ڈی ڈی، لگا یا گیا ہے،بہتر ہوتا انہیں کسی اہم محکمے کا سیکرٹری لگایا جاتا، رفاقت علی نسوآنہ کا تبادلہ بطور سیکرٹری عملدرآمد و رابطہ اچھا انتخاب ہے،وہ محنتی اور قابل افسر ہیں۔

گڈ گورننس کسی بھی سیاسی پارٹی، حکومت، حکمران اور ہر خاص و عام کا خواب بلکہ تمنا ہوتی ہے، گڈ گورننس کے لحاظ سے ہم اقوام عالم میں کہاں کھڑے ہیں اس کا اندازہ اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ گڈ گورننس کے 8 اصولوں پر ایک نظر ڈالنے سے بخوبی ہو جاتا ہے، یہاں گڈ گورننس کے اصول گنوانا مقصود نہیں بلکہ ان اصولوں میں سے دو پر نئی وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ مبذول کرانا ہے، مذکورہ دو اصولوں میں اول،، اداروں کو ایسے نتائج پیدا کرنے کے قابل ہونا چاہیے جو ان کی کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کریں دوم، احتساب، جو حکومت کے عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

ذرا غور سے مشاہدہ کیا جائے تو یہ دو اصول باہم منسلک محسوس ہوں گے، ادارے اسی وقت کمیونٹی کی ضروریات کے مطابق نتائج دے سکتے ہیں جب کام کرنے والے افسر لگا کر انہیں کام کرنے کی آزادی دی جائے، دوسرے لفظوں میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت اور حکمران اپنا احتساب کرنے کے بجائے اداروں اور ان کے سربراہان کو اپنے اختیارات کا نشانہ بنا کر عوام کو مطمئن ہونے کی کوشش کریں تو گڈ گورننس کا قائم ہونا ممکن نہیں۔اپنے ملک کے نظام، معاملات، اس کی اب تک کی گورننس پر ایک نظر ڈال لیجئے سب کچھ واضح ہو جائے گا۔

تبصرے بند ہیں.