2024ء کے عام انتخابات تاریخ کے انوکھے ترین الیکشن ہیں جس میں اکثریت سے جیتنے والے بھی دھاندلی کا ا لزام لگا رہے ہیں اور ہارنے والے بھی، حالیہ الیکشن اس حوالے سے بھی انوکھے ہیں کہ ن لیگ پر رزلٹ سے قبل ہی ساڈی گل ہو گئی اے جیسے الزامات لگائے گئے لیول فیلڈ پلیئنگ جیسے القابات دیئے گئے، شیر چوہا نکلا اس کا تیر سے شکار کریں گے، جیسی زبان استعمال کی گئی۔ دوسری طرف نواز شریف وزیراعظم عوام نے فیصلہ سنا دیا، جیسے جہازی ساز کے اشتہارات چھپوائے گئے۔ جو کہتا تھا نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم نہیں بننے دوں گا وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے اور منظرعام سے غائب ہے، پی پی نالے چوپڑیاں نالے دو دو کی پالیسی پر چل رہی ہے وزارتیں نہیں لینی لیکن صدر اپنا، سینیٹ چیئرمین اپنا، سپیکر اپنا ہونا چاہیے۔ ن لیگ والے کہتے تھے ہم اقتدار میں آئے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے، وہ بھی مکمل خاموش ہیں۔ صرف جوڑ توڑ کی حد تک میدان میں ہیں۔ نواز شریف سیاست سے آئوٹ ہو چکے ہیں۔ اگلی نسل اقتدار کے مزے اڑانے کے درپے ہے۔ حالیہ الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو منہ کی کھانا پڑی، سوائے ان کے جن کو الیکشن مہم کی اجازت نہ تھی، وہ جن کو انتخابی نشان نہ ملا، وہ جن کو کھڈے لائن لگانے یا لگوانے کیلئے ہزار جتن کیے گئے، وہ جن کا قائد اڈیالہ جیل کا مکین ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے ہونی کو انہونی کر کے سب کو حیران کر دیا۔ اس کی وجہ تحریک انصاف کے خلاف بننے والے 12ویں اتحاد پی ڈی ایم کے نتیجے میں بننے والی حکومت تھی۔ جس کے وزیراعظم شہباز بنے یہ کہہ کر عدم اعتماد لائی تھی کہ مہنگائی کا خاتمہ کریں گے لیکن مہنگائی کئی گنا اور بڑھ گئی۔ لوگوں کے دلوں میں ن لیگ کے خلاف نفرت نے جنم لیا اور اس کا غصہ ووٹ کی صورت میں نکال کر نواز شریف کو سیاست سے ہی آؤٹ کر دیا، یہ ایک حقیقت ہے اسے کوئی مانے یا نہ مانے؟ پی ڈی ایم کا سربراہ فضل الرحمن عمران خان کو فتنہ فتنہ کہتا تھا، یہودی ایجنٹ کہتا تھا اور آج اس سے جپھیاں ڈال رہا ہے اور دوسری طرف مولانا ڈیزل ڈیزل کی گردان کرنے والا بانی پی ٹی آئی بھی تمام حدیں عبور کر کے جے یو آئی سے تعاون مانگ رہا ہے۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے آنے والے دنوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ مولانا نے جو گل کھلایا الیکشن میں ناکامی کے بعد اس پر تھو تھو کرنے کو دل کرتا ہے، اب کیا کہیں پیچھے اس امام دے یا آگے اس مولانا کے؟ 76 سال میں سیاست کے میدان میں یہی کچھ ہوتا آیا، یہی چہرے ہیں جن کی وجہ سے آج پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے، یہی تن کے اجلے اور من کے کالے چہرے ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کیلئے سیاست کو دین کو استعمال کیا۔ آج مفادات کا کھیل پھر کھیلا جا رہا ہے کوئی عوام کے مفادات کا کھیل نہیں کھیل رہا۔ انہی چہروں نے ملک کے اجلے چہرے کو داغدار کیا ہے۔ اللہ کا انعام پاکستان آج دنیا میں لوٹ کھسوٹ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حال کس نے کیا انہوں نے جنہوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، جنہوں نے اپنی نسل سنوارنے کیلئے دوسروں کی نسلیں تباہ کر دیں، جنہوں نے ملک کو نہیں سیاست کو مقدم بنایا، وہ جنہوں نے پہلے امریکہ پر الزام لگایا؟ پھر امریکہ سے ہی مدد مانگی۔ آج حالات اس نہج پر ہیں کہ کوئی حکومت بنانے کو تیار نہیں، وہ بھی جنہیں اکثریت ملی ہچکچا رہے ہیں اور وہ بھی جنہیں صرف شرمندگی ملی۔ ہر کوئی عزت بچانے کے درپے ہے، اب کوئی نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہا ہے تو کوئی اسٹیبلشمنٹ پر وار کر رہا ہے لیکن اب تحریک انصاف نے وزارت عظمیٰ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے اندر رہ کر کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ فوج خاموش ہے، عدلیہ تماشا دیکھ رہی ہے، باقی ادارے بھی تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں، احتجاج ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ دوسری طرف کے پی میں علی امین کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی کر کے گیٹ نمبر 4 والوں کو سخت پیغام دیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے تحریک انصاف لڑائی کے موڈ میں ہے جو ملکی مفاد میں نہیں۔ 9 ویں پی ایس ایل کے ہوتے ہوئے بھی ملک میں اداسی چھائی ہوئی ہے جو کہتے تھے الیکشن کے بعد حالات سدھر جائیں گے، ان کا بیانہ بھی پٹ گیا جو کہتے تھے ہم آئیں گے تو یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا وہ بھی ”بل“ ہی میںجا گھسے۔ ہر کوئی ”لب“ سیے بیٹھا ہے۔ عوام پریشان ہیں، نوجوان زیادہ پریشان ہیں جو ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ سرمایہ کاری روٹھ گئی ایک ایک کر کے قومی ادارے تباہ ہو گئے جنہیں ایک ایک کر کے بیچا جا رہا ہے جب سارے ادارے بک جائیں گے خسارے کے نام پر تو پھر رہے گا کیا بیچنے کو صرف پاکستان؟ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے 76 سال میں کیا کھویا کیا پایا لیکن اگر دیکھا جائے تو ہم نے کھویا ہی کھویا ہے پایا کچھ نہیں۔ روزانہ اربوں کی کرپشن ہو رہی ہے، قرض پہ قرض لے رہے ہیں، اتنا قرض گیا کہاں؟ آج بھی صحت اور تعلیم کے شعبے آخری سانسیں لے رہے ہیں، آمریت کا ساتھ دینے والے آج خوشحال اور ملک بے حال ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی روح آج بھی تڑپ رہی ہو گی جنہوں نے اپنی جوانی کے ایام اس ملک کے لیے وقف کر دیئے، وہ بہن جس نے بھائی کے کندھے سے کندھا ملایا، وہ خاتون جس نے اپنے سارے سہانے سپنے میٹھی نیند سلا کر پاکستان کے قیام کے لیے کام کیا اور آج ہم ہیں کہ گتھی کو سلجھانے کے بجائے اسے مزید گنجلوں کی نذر کر رہے ہیں۔ اگر سیاستدان اسی طرح اپنے مفادات کے لیے دست و گریبان ہوتے رہے تو بھوک، ننگ، افلاس ہمارا مقدر بن جائے گی اور ہمیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ کیونکہ کوئی ہمسایہ ہمارا نہیں ہم نے سجن کم اور دشمن زیادہ پیدا کیے ہیں، آئیں ہم بھی سوچیں سیاستدان بھی سوچیں اور سوچیں صرف اور صرف پاکستان کیلئے؟؟
تبصرے بند ہیں.