سال 2023 جہاں سیاسی ابتری کے نتیجے میں آنے والی نگران حکومت کا سال تھا مگر تعمیراتی اور اصطلاحاتی ترقی کا بے مثال سال تھا۔ پورا سال فقط کام ہی ہوتا رہا اس قدر زیادہ کہ جب انتخابات کا ڈھول بجا باقاعدہ طور پر لوگوں کے دل سہمے کہ اب الزام تراشیوں، بدنامیوں رسوائیوں جواب شکوہ گالیوں، تھپڑوں بھرے ٹاک شوز دن رات ہمارے کان کھاتے کائیں کائیں کرتے سیاست دان اور ان کے خوشامدیوں کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔
نگران حکومت کا قدرے طویل ہوجانا پنجاب کی حدتک تو انتہائی کارگر ہوا ہے اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی یہ بہترین موقع تھا کہ اسی سیاسی کھینچا تانی اور اسلامی کے ٹوٹنے بننے کے عمل کے دوران عوامی فلاح کے لیے بھی کچھ کرلیا جائے جو کہ منتخب حکومتیں نہیں کرتیں۔۔۔
منتخب حکومتوں میں سیاسی لوگوں کی تصویروں کے ساتھ اخبارات میں کوٹہ سسٹم کے تحت اشتہارات اور خالی خولی نعرہ بازی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔
جبکہ یہ پورا سال درویش صفت وزیراعلیٰ سید محسن رضا نقوی اور ڈی جی ایل ڈی اے وکمشنر چوہدری محمد علی رندھاوا کی کاوشوں کا سال تھا موسموں کی شدت وسائل کے مسائل اور ایک ہی وقت میں بیسیوں پراجیکٹس منصوبے ایل ڈی اے اصطلاحات لوگوں کی ڈاکومنٹس تک رسائی ون ونڈو آپریشنز کیا کچھ نہیں تھا۔
سینئر ترین صحافی جناب مجیب الرحمن شامی صاحب نے جب گزشتہ برس کی کارروائی پر پروگرام کیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب کی پوری ٹیم کے ساتھ ساتھ بطور خاص علی رندھاوا صاحب کے کام کو سراہا، معاون صحافی نے جو اقدامات کی فہرست پیش کی وہ ضرور واحد کے لیے ناقابل یقین ہے شامی صاحب نے رندھاوا صاحب کی زیر سربراہی ایل ڈی اے کی فقید المثال کامیابیوں کا اعتراف کیا اور شاباش پیش کی۔
تفصیل کچھ یوں ہے تاخیر کا شکار لاہور برج منصوبے کی ریکارڈ مدت میں تکمیل پی کے ایل آئی PKLIکی تزئین و آرائش جس کا اعتراف شہباز شریف نے بطور وزیراعظم کیا، سمن آباد انڈر پاس کی ہدف سے دوماہ قبل تکمیل شاہدرہ فلائی اوور ریکارڈ مدت میں مکمل بیدیاں انڈر پاس محض 70 دن میں مکمل مولانا محمد علی جوہر کی ریکارڈ مدت میں تکمیل نظریہ پاکستان کو ریڈور منصوبہ جو کہ دیگر منصوبوں کی طرح 5 سال سے بند پڑا تھا مکمل ہوا کیولری انڈر پاس کی تکمیل ایل ڈی اے اسفالٹ پلانٹ فنکشنل گلبرگ سپورٹس کمپلیکس سنت نگر کمپلیکس ایل ڈی موبائل ایپ کا اجراء بزرگ صارفین کو گھر کے دروازے پر دستاویزات کی فراہمی ”دستک“ کا آغاز ون ونڈو صبح نو تا رات نو بجے تک آپریشنل ریکارڈ ریونیو کلیکشن ایل ڈی ستی جو مدتوں سے بے کارپڑی تھی وہاں پلاٹ پوزیشن کا آغاز راوی برج توسیعی منصوبہ اور بند روڈ منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ پی آئی سی جو کہ ہسپتال ہی دل کا ہے نہایت ”خوفناک“ منظر پیش کرتا تھا مگر اب وہاں لواحقین کے لیے سرائے کا قیام اور تزئین و آرائش کے علاوہ ایمبولینس کے جیل روڈ سے داخلے کو آسان بنایا جا رہا ہے۔
یہ شاید ابھی میں نے آدھے بھی منصوبے نہیں گنوائے میں سمجھتی ہوں بطور کالم نگار میرا کام محض تنقید ہی نہیں ہے جب کوئی ادارہ اچھا کام کرتا ہے تو اس کا اعتراف اور دیگر اداروں کے علاوہ مایوس عوام کو امیددلانا بھی ہے۔
حالانکہ 9 ڈویژن میں سے لاہور ہی وہ ڈویژن ہے جہاں کمشنر سے ایم ایل سی کا چارج لیا گیا جبکہ سب سے زیادہ کام یہاں ہی ہورہا تھا باقی آٹھ ڈویژنز کے نہ کسی کو کمشنر کا نام آتا ہے نہ ہی کام سامنے آیا ہے شب وروز کی محنت اس امر کی متقاضی ہے کہ کمشنر و ڈی جی ایل اے محمد علی رندھاوا کو قومی ایوارڈ سے نوازا جائے جب دیگر شعبوں کے افراد کو ایوارڈ ملتے ہیں تویقیناً بیوروکریٹ کو بھی ملنے چاہئیں۔
دیگر بیوروکریٹس بھی کام کررہے ہیں مگر اپنی صحت کو داؤ پر لگا کر کوئی کوئی نام بناتا ہے۔
جناب محسن رضا نقوی صاحب کی سربراہی میں جس لیول کا کام ہوا ہے اور جس طرح وزیراعلیٰ نے نہ دن دیکھانہ رات نہ لباس کی پرواہ نہ طعام سادہ سے دورنگوں نیلے اور سفید دوجوڑوں میں تمام وقت عوامی فلاح میں گزارا اس سے صاف واضح تھا کہ اہل حکم ایسے بندے کو ضائع نہیں کرسکتے انتخابات کے نتیجے میں تو وہی لڑتے بھڑتے بی اے پاس سیاستدان آنے والے ہیں مگر محسن نقوی کو کرکٹ کی تباہ ہوتی صورتحال کے پیش نظر چیئرمین اور بورڈ آف گورنر کا ممبر لگا دیا گیا ہے۔ کرکٹ میں تو بہتری ہو جائے گی مگر پی ڈی ایم جو دوبارہ بذریعہ الیکشن آرہی ہے جناب محسن رضا نقوی کے عشر عشیر بھی کام نہیں کرسکے گی۔
محسن نقوی نے جو پیرامیٹر سیٹ کردیا ہے اس پر پورا اترنا کسی شہرت کے شوقین کے بس کا کام نہیں جو آئے گا محض اپوزیشن کے خلاف تقریریں اور مسائل کوماضی کا اثاثہ کہے گا محسن نقوی نے نہ غربت کا رونا رویا نہ قرضے سنائے نہ پچھلی حکومتوں کے نقص نکالے نہ پنجاب کو احساس کمتری میں ڈالا۔
پورا سال سیاسی طورپر نہایت سکون کا سال تھا جس میں قائد اعظم کے فرمان کے مطابق صرف کام کام اور کام ہوا ۔
سیاستدانوں کو شوچنا ہوگا کہ عوام نے 2023 نہایت سکون اور ترقی واصطلاحات کا سال دیکھا ہے جبکہ جھوٹے وعدے کرنے والے کا انجام سامنے ہے لہٰذا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو ہدایت ہے کہ 300 یونٹ فری اور مہنگائی جو وہ خود لائے تھے مکانات کی تعمیر کے وعدے نہ کریں وہی انجام ممکن ہے جو خان کا اس وقت ہے۔
اداروں کو مضبوط کریں صنعت کو بڑھائیں گفتگو کم کریں کام کریں محسن نقوی کی طرح اور افسران کام کریں کمشنر لاہور ڈویژن وڈی جی ایل ڈی اے محمد علی رندھاوا کی طرح۔۔۔
صوفیہ بیدار
تبصرے بند ہیں.