ملکی سیاست میں تیزی آتی جا رہی ہے، مسلم لیگ (ن )کی قیادت کی جارحانہ انتخابی مہم کے بعدعوام کو اب حتمی طوریقین آ گیا ہے کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہی ہو رہے ہیں کیونکہ قبل ازیں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف)کی کی قیادت کوشبہ تھاکہ سب کچھ آرٹیفیشل ہو رہا ہے، سیاسی انجینئرنگ کی جارہی ہے تاکہ سب جماعتوں کو الیکشن الیکشن کھلا کر انتخابات کو کچھ عرصہ کیلئے ملتوی کر دیا جائے گا لیکن جیسے ہی مسلم لیگ ن کی قیادت بالخصوص شریف خاندان انتخابی میدان میں کودا ہے تب سے سب کی گلے شکوے دور ہو گئے، انتخابی کاروبار سے متعلقہ انڈسٹری میں بھی تیزی آ گئی، پوسٹرز، فلیکسز، بینرز، پمفلٹس، جھنڈے سمیت دیگر انتخابی میٹریل کی فروخت بڑھ گئی۔ سابق وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے تو بنیادی طور پر اپنے حلقہ انتخاب این اے 123 کی مہم کا ماہ رواں میں آغاز کر دیا ہے جس کے بعد چندروزقبل وہ دوبارہ اپنی انتخابی ٹیم رانا مبشر اقبال، شبیر احمد عثمانی، ملک خالد فاروق کھوکھر، عمران جاوید، رانا خالد قادری اور اختر بادشاہ سمیت دیگر رہنماؤں کے ساتھ حلقہ کے مختلف علاقوں میں گئے جہاں کارکنوں نے ان کا شاندار استقبال کیا، اور شہباز شریف نے عوام سے وعدہ لیا کہ وہ فجرکی نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنز جا کر ووٹ کاسٹ کرنے کاقومی فریضہ انجام دیں گے اور اپیل کی اگروہ قوم کو ترقی اور عالمی دنیا میں معاشی طور پر بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو شیر پر مہر لگائیں، اسی روز سا بق وزیراعظم محمد نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نوازکے ہمراہ حافظ آباد میں این اے 67 میں سابق وفاقی وزیرسائرہ افضل تارڑ کے حلقہ انتخاب میں پہلا انتخابی جلسہ کیا اورسیاسی مخالفین کے منہ بند کئے کیونکہ بالخصوص بلاول بھٹو زرداری اس ضمن میں بہت ٹچی اورحیران تھے کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف باہرکیوں نہیں نکل رہے؟؟ اور طعنے مارتے تھے کہ عوام کا خون چوسنے والا شیر چوتھی بار وزیر اعظم بننا چاہتا ہے مگر عوام سے ووٹ نہیں مانگ رہا، جبکہ میں کئی روز سے میدان میں عوام کے سامنے موجود ہوں۔ حافظ آباد میں میاں نواز شریف کی اچھی Public appearance تھی، عوام نے اچھا ریسپانس دیا، جبکہ اس سے قبل مریم نواز بھی این اے124کے ذیلی صوبائی حلقہ 159میں مختلف علاقوں میں انہی رفقائے کار کے ہمراہ ریلی نکالی، اس ریلی میں ان کے صاحبزادے جنید صفدر پہلی بار اپنی والدہ کی انتخابی مہم میں پیش پیش رہے، مریم نواز نے گجومتہ سے شنگھائی پل کے دونوں اطراف میں بیس سے زائد مختلف مقامات پر کارکن کے استقبالیہ کیمپ کا وزٹ کیا، گجومتہ، نشتر کالونی اور یوحنا آباد میں خطاب کیا، سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف اب تک مانسہرہ، فاروق آباد اور ننکانہ صاحب میں انتخابی میدان سجا چکے ہیں، اندرون شہرکے کارکنوں موبلائز کرنے کیلئے حمزہ شہباز متحرک ہیں، این اے 118 کے مرکزی دفتر کے افتتاح کے موقعہ پر اچھا جلسہ کیا جبکہ سب سے بڑی بات کہ محمد نواز شریف نے دور روز قبل اپنے حلقہ انتخاب این اے 130 اور ذیلی صوبائی حلقہ 174 کا اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ ساڑھے تین گھنٹے طویل دورہ کیا اور ریلی کی قیادت کی جس میں قریب 30 سے زائد استقبالیہ کیمپوں کے وزٹ سے کارکنوں کو متحرک کیا۔
یہ تو تھی کچھ مختصر کارروائی مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کی، دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی نے لاہورکے حلقہ این اے 127 کو زبردست حکمت عملی کے تحت فوکس کیا ہوا ہے، بلاول بھٹو مسیحی برداری کے ووٹ پربہت انحصار کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ کن کردار ادا کریں گے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس حلقے سے گذشتہ ضمنی انتخاب میں جیالے اسلم گل نے اگرچہ شکست کھائی لیکن اچھا مقابلہ کیا اور اچھے ووٹ حاصل کئے، لیکن بلاول یہ بھول گئے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو جو ووٹ ملے تھے وہ بدنام زمانہ غیرسیاسی فارمولا اختیار کرنے پرملے تھے لیکن یہ فارمولہ اس بارکچھ زیادہ کام نہیں آئے گا اورمعاملہ اس مثال ”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس ٹوٹا 12 آنے“ کے مصداق ہو گا کیونکہ ان کے مقابلے میں ن لیگ ایک اچھے پڑھے لکھے نوجوان میدان میں لائی ہے، عطاء تارڑ سابق صدرمملکت محمد رفیق تارڑ کے پوتے ہیں، لاہور میں پلے بڑھے، اور شریف خاندان کے معتمد ساتھی ہیں، ان کے ایک بھائی فاروق تارڑ رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں اورسائرہ افضل تارڑ ان کی چچی ہیں جن کے والد افضل تارڑ بھی پارلیمنٹرین رہ چکے ہیں جن کی نشست پرسائرہ افضل تارڑ ہربار جنرل الیکشن لڑتی ہیں، عطاء تارڑ نے محمد شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دوران طویل وقت ان کے ساتھ گزارا اور پھر حمزہ شبہاز کے صوبائی کابینہ کے رکن رہے اور تحریک انصاف سمیت چودھری خاندان کیلئے دردسربنے رہے، بعدازاں سابق وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں اہم ذمہ دار نبھائی، عطاتارڑ بہت محنت کر رہے ہیں، اور ان کے جیتنے کے قوی امکانات ہیں، سوچتا ہوں کہ اگر بلاول ہار گئے تو اس کے بعد پیپلز پارٹی کی پنجاب میں کیا سیاسی صورتحال ہوگی؟؟؟ بلاول کی بڑھکیں کیا رنگ لائیں گی ؟؟؟ بحرحال کانٹے دار مقابلہ ہے، جس کوقومی اہمیت حاصل رہے گی۔ باقی تحریک انصاف ،جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں کی انتخابی مہم اور امیدواروں کی مجموعی انتخابی صورتحال بہت خراب ہے۔
اصل میں انتخابی پھڈا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہے، مگر عوامی حالات واضح ہیں اسی لئے بلاول بھٹون لیگ اور ان کی قیادت پر حملے کر رہے ہیں، جس کا بڑی خوبصورتی سے جواب محمد شہباز شریف نے احمدپور شرقیہ (بہاولپور) میں اپنے ”مہربان بلاول“ کو دیا۔ شہباز شریف گفتار کے حوالے کمال اہلیت کے حامل ہیں اور بڑی نپاتلا رکھ تنقید کرتے ہیں جس میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ مزاح بھی ہوتا ہے اوریہی ان کی شخصیت کا کمال ہے، تاہم ان کی شخصیت کا ایک کمال ان کی دوستوں اور ساتھیوں سے وفاداری تھی جس کی وجہ سے انہیں اکثر مشکل صورتحال کابھی سامنا کرنا پڑتا ہے، حال ہی میں حامد میرکی کتاب میں شہباز شریف کی اپنے بھائی نواز شریف سے وفاداری بارے انکشاف نے ان کونہ صرف خاندان بلکہ پاکستان کے سیاسی نظام میں بڑی عزت ملی۔ حامد میر کے انکشاف کے مطابق شہباز شریف نے نہ صرف 2000ء کی دہائی میں پرویز مشرف کی بھائی نواز شریف سے غداری کے عوض وزیراعظم بنانے کی پیشکش ٹھکرائی بلکہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید سمیت تین دیگر جرنیلوں کے سامنے ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے بدلے بھائی سے غداری کرنے سے انکار کر دیا جو میں سمجھتا ہوں کہ یہ شہباز شریف کی اپنے بھائی اورخاندان کومتحد رکھنے کیلئے ایک بار پھربڑی قربانی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ نواز شہباز دنیا میں بھائیوں کی لازوال محبت اور وفاداری کاایک بڑانمونہ ہیں اور دوسری جانب نواز شریف بھی اپنے بھائی کی انتہائی قدر کرتے ہیں۔
نواز شہباز محبت اپنی جگہ مگر سیاسی طور پر دیکھا جائے کہ اگر (ن) لیگ پنجاب فتح کر لیتی ہے تو وزیراعلیٰ کون ہوگا؟؟ یہ کوئی نئی نہیں بلکہ پرانی بحث ہے ،اس پرمختلف حلقے اپنی اپنی آراء کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن میری رائے ہے کہ پنجاب ایک بڑی سیاسی وکٹ ہے اس کو شہباز شریف کے ہی ہاتھوں میں ہونا چاہئے اگر وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں کوئی اور شامل ہوا تو اس سے ن لیگ کیلئے کئی سیاسی و غیرسیاسی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور اگر وزارت اعلیٰ شہباز شریف کے پاس ہوگی اس کے مثبت سیاسی اثرات نہ صرف پنجاب بلکہ مرکز کے ساتھ دیگر صوبوں پر بھی ہیں، کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ شہباز شریف ایک زبردست سیاسی بصیرت کے حامل ہیں جودیگر صوبوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اورسیاسی مفاہمت کے بادشاہ بھی ہیں۔
تبصرے بند ہیں.