دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے

22

لڑکپن اور جوانی میں ہوش کے بجائے جوش سے کام لیا جاتا ہے اور جب ہوش آتی ہے تو بڑوں کی باتیں یاد آتی ہیں جن میں زندگی کے جینے کا سلیقہ ہوتا تھا ”پنڈ“ کے رہنے والے ہیں جہاں جینا اور مرنا سانجھا ہوتا تھا اور ہے ہلکے پھلکے لڑائی جھگڑے صبح ہوتے تو شام کو ختم ہو جاتے اور جب شام کو ہوتے تو دن چڑھتے ہی جپھیاں ڈل جاتی تھیں آج کی نسبت کدورت اور نفرتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، آج تو نفسا نفسی کا عالم ہے مفاد اور مطلب پرستی کے میل ملاپ میں گائوں میں کبھی کوئی لڑائی ہوتی تو کہتے تھے کہ ڈنڈا سوٹا ٹانگوں پر ماریں سر پر نہیں کیونکہ سر پر مارنے سے بندے کے مرنے کا زیادہ چانس ہوتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ اگر دشمن مر گیا تو پھر دشمنی کیسی؟ اب تو ہم بات بات پر کہتے ہیں تیری مینوں شکل نظر نہ آوے جیسا کہ اب ملک کی سیاست میں ہو رہا ہے پہلے پی پی اور ن لیگ میں اٹ کھڑکا ہوتا تھا پھر تحریک انصاف آ گئی جسے دونوں پارٹیاں برداشت نہ کرتی تھیں ن لیگ اور پی پی والے پرانے ”پاپی“ تھے انہیں سچ اور جھوٹ کا ہر راستہ آتا تھا اور وہ ہر مشکل سے باآسانی نکل جاتے تھے، ان کے برعکس تحریک انصاف کا معاملہ الٹ تھا تمام تر لاڈلے پن کے باوجود چالاکیاں ذرا کم ہی آتی تھیں لیکن ایک بات طے تھی کہ غرور تکبر اور گھمنڈ انگ انگ میں بھرا تھا اور ہے اس لئے ساڑھے تین سال میں ہی حکومت اللہ کو پیاری ہو گئی مخالفین کو تگنی کا ناچ نچانے والا بانی پی ٹی آئی آج اڈیالہ جیل کا مکین ہے آج ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا طوطی بول رہا ہے آٹھ فروری کو الیکشن ہونگے یا نہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے الیکشن کرانے کا حکم دیا اور دوسری طرف الیکشن نہ کروانے کے لئے یا ملتوی کرنے کے لئے قراردادیں آ رہی ہیں بلاول سولہ ماہ کی پی ڈی ایم سرکار میں موج مستی کرتا رہا شہباز شریف کی
تعریفوں کے پل باندھتا رہا کراچی کے لئے شہباز سپیڈ کی خواہش کرتا رہا اور حکومت ختم ہوتے ہی عوام کے مسائل یاد آ گئے ہیں گلابی اردو سے جلسے کر کے وزیراعظم بننے کے خواب دیکھنے لگا دوسری طرف پی ٹی آئی سے ”بلے“ کا نشان چھن گیا جس پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں، پی ٹی آئی کو حماقتیں لے ڈوبیں حالانکہ یہی پی ٹی آئی ہے جس کے بانی کا جج گھنٹوں بیٹھا انتظار کرتا تھا کیس کی سماعت کے لئے؟ پیپلزپارٹی سے بھی انتخابی نشان چھینا گیا کیا پی پی ختم ہو گئی ن لیگ سے بھی نشان لیا گیا کیا ن لیگ ختم ہو گئی تو تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھننے سے تحریک انصاف ختم نہیں ہو گی صرف بے وقوفی یہ کی گئی ہے کہ صرف بلے کے لئے رٹ لگائی گئی اس کی جگہ کوئی نشان اپلائی کیا جاتا تو حالات اور الیکشن کے نتائج کچھ اور ہوتے ”بلا“ چھینے جانے پر جاتی امراء اور لاڑکانہ کے بادشاہوں کی باچھیں کھل اٹھی ہیں راستے کے تمام کانٹے صاف ہوگئے یہ بھول کر کہ جس دشمن کی شکست پر یا برے دن آنے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں کل کو یہی کچھ آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جو ماضی میں ہوا تھا دوسری طرف بیرسٹر گوہر بھی ڈبل گیم کھیل رہے ہیں جیسے وہ کسی اور کے کہنے پر کام کر رہے ہوں تحریک انصاف نظریاتی سے معاہدے پر اختر اقبال ڈار کے دستخط تو ہیں لیکن تحریک انصاف کے نہیں؟ اس سے تو بہتر تھا شیخ رشید کی پارٹی سے مک مکا کر لیا ہوتا کیونکہ وہ بھی پرانا پاپی ہے سیاست کی اونچ نیچ کو جانتا ہے لیکن بیرسٹر گوہر اسے بھی برداشت نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا کہ اسے آگے نہیں آنے دوں گا اور شیخ رشید اور راشد شفیق کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے کر دیئے ایسے لگ رہا ہے جیسے عمران خان کو مکمل کارنر کر دیا گیا ہے اور اگر یہ بات غلط ہے تو پھر کون ہے جو اس طرح کے فیصلے کروا رہا ہے؟ سپریم کورٹ میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے ہاتھ دھونا پڑے انتخابی دنگل سے بھی باہر ہو گئی دوسری طرف اے این پی نے بھی انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروائے تھے انہیں عدالت نے صرف 20 ہزار جرمانہ کر کے لالٹین کا نشان بھی دے دیا اور الیکشن لڑنے کی اجازت بھی؟ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن نے 2020 میں الیکشن کرانے کو کہا تھا تاہم تحریک انصاف نے موقف اختیار کیا کہ کووڈ کی وجہ سے الیکشن کرانا ممکن نہیں۔ 2021 میں بھی الیکشن نہ کرائے گئے۔ 2022 میں الیکشن کمیشن نے الیکشن کا کہا تو ایک رپورٹ الیکشن کمیشن میں پیش کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بارے میں پارٹی کے دعوے کو تسلیم نہ کیا یہ معاملہ چلتا رہا اور الیکشن کمیشن نے نومبر 2022 کو پارٹی الیکشن 20 دن میں کرانے کا حکم دیا جس کے بعد 2 دسمبر کو انتخابات کرائے مگر پارٹی کے آئین کے مطابق یہ الیکشن نہیں کرائے تو الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا گیا اس کے بعد پشاور ہائیکورٹ سے حکم کالعدم کر دیا گیا تاہم سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر کے پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے دیئے۔ یہ دوہرا معیار نہیں، تحریک انصاف سے جو بہت بڑی غلطی ہوئی وہ یہ کہ ”بلے“ کے پیچھے ہی پڑی رہی۔ بہتر ہوتا کہ وہ الیکشن پارٹی آئین کے مطابق کرا لیتے تاکہ پارٹی الیکشن اپنے ہی نشان پر لڑ سکتی۔ ایسا ہوتا تو الیکشن کا پورا ماحول بن جاتا۔ کپتان نے حکومت میں ٹیم بناتے وقت بھی ”چول“ ماری تھی جس پر وہ ناکام ہوا اور جو ساتھ جیتے مرنے کی قسمیں کھایا کرتے تھے مشکل پڑنے پر ایک ایک کر کے گھونسلے بدلنے لگے اور اب وہی خان پر زبان درازی کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ اے گھوڑے تے اے میدان لگ پتہ جائے گا کہ یہ لوٹے کتنے پانی میں ہیں بہرحال کھلاڑیوں کو الیکشن کی دوڑ سے باہر کرنے سے الیکشن نہیں سلیکشن کا ماحول بنے گا اور حکومت سازی میں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کی لاٹری نکلنے والی ہے اور بیساکھیوں کے سہارے بننے والی حکومت کا اللہ ہی حافظ ہو گا؟؟؟۔

تبصرے بند ہیں.