نئے سال کی آمد سے قبل ہم میں سے بیشتر بہت سے ارادے باندھتے ہیں۔ کچھ کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کرتے ہیں۔ اپنی نوکری ، کاروبار، تعلیم، شادی،سفر، وغیرہ کے حوالے سے کچھ اہداف مقرر کرتے ہیں۔ نئے سال سے خوش امیدی کا تصور جڑا ہوتا ہے۔ ایک نئی توانائی کے ساتھ ہم نئے سال میں کام کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نئے سال کے لئے نئے نئے ارادے باندھنے کے ساتھ عمومی طور پر ہم گزرے سال کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ اپنا احتساب کرتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ اپنی کمی اور کوتاہیوں کو تسلیم کرتے اور آئندہ ان سے بچنے کا عزم کرتے ہیں۔بہت سے افراد اپنے طے کردہ اہداف حاصل کرنے میں کلی یا جزوی طور پر کامیاب رہتے ہیں۔ بہت سے ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہر سال اپنے خوابوں ، اپنی ترقی، اپنی خوشحالی کا تعاقب کرنے کا ارادہ ہم ضرور باندھتے ہیں۔ یہ سب ہم انفرادی سطح پر کرتے ہیں۔ کاش ہر نئے سال کی آمد سے قبل ملکی اور قومی سطح پر بھی اس بات کا اہتمام کیا جائے۔ ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ٹارگٹ مخصوص کئے جائیں۔ بطور قوم اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لے کر ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا عہد کیا جائے۔ اور پھر سارا سال اپنے اہداف کے حصول کے لئے محنت مشقت کی جائے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے۔
ہر نئے سال کے آغاز میں جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو قومی مسائل کا ایک انبوہ کثیر دکھائی دیتا ہے۔ایک سو پینسٹھ دن گزارنے کے بعد، سال کے اختتام پر جب ہم سال بھر کا گوشوارہ نکالتے ہیں تو مسائل جوں کے توں منہ کھولے سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہم کیسے آگے بڑھیں ؟ ان مسائل کے بوجھ سے کب اور کیونکر نجات پائیں؟ سال 2023 پر نگاہ کیجئے۔ ہمارا قومی منظر نامہ سیاسی بے یقینی اور معاشی عدم استحکام کا شکار رہا۔ معیشت میں بہتری کے کچھ مبہم اشارے دکھائی دئیے۔ لیکن کوئی بڑی اور قابل ذکر تبدیلی نہیں آ سکی۔ سیاست میں بھی افراتفری، انتشار اور بے یقینی کی کیفیت نمایاں رہی۔ ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں ہے۔ ہر شہری، ہر شعبے اور ہر معاملات حیات کا تعلق ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال سے جڑا ہوتا ہے۔ جب سیاست اور معیشت کی کشتی ہر وقت ہچکولوں کی زد میں رہے گی تو عام آدمی کی زندگی میں مثبت تبدیلی کیسے آ سکتی ہے۔ اس صورتحال میں وطن عزیز کے بارے میں بھولے بھٹکے اچھی خبر آ تی بھی ہے تو نظر انداز ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں عوام الناس مایوسی کا شکار نہ ہوں تو کیا کریں۔
اللہ کرئے کہ 2024 کا سال پاکستان کے لئے خوشیوں کی نوید بن کر آئے۔ حالات جیسے بھی ہیں،نئے سال سے ہماری بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سال 8 فروری کو انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں طویل آمرانہ حکومتیں قائم رہیں اور جمہوریت پنپ نہیں سکی، انتخابات کا ہونا بذات خود ایک اچھی اور مثبت خبر ہے۔ الیکشن ہوں گے ۔ نئی حکومت بنے گی ۔ تو امید کی جا سکتی ہے کہ سیاسی استحکام آئے گا۔ملک میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہو گی۔ نئی حکومت پر عوام کی مشکلات کم کرنے اور انہیں ریلیف پہنچانے کے لئے سخت دباو ہو گا۔ ان حالات میں وہ اچھی کارکردگی دکھانے پر مجبور ہو گی۔ تاہم کسی بھی جماعت کی حکومت قائم ہو، اس کے لئے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہو گی۔ یہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ سرکاری یا قومی ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ عوا م مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بجلی، گیس، پٹرول، ادویات وغیرہ ان کی پہنچ سے دور ہیں۔ نوجوانوں کو بے روز گاری کا سامنا ہے۔ ہمسایوں سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اقوام عالم میں ہم تنہا ئی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں حکومت کرنا بالکل آسان نہیں ہو گا۔ اللہ کرئے کہ الیکشن کے بعد میرے ملک اور قوم کے لئے بہتری کی امید پیدا ہو۔ آمین۔
ان توقعات کے ساتھ ساتھ بہت سے خدشات بھی نئے سال سے جڑے ہوئے ہیں۔مثلا جو حکومت قائم ہوگی، اس کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ تو نہیں ہو گا کہ وہ عوام کو فوری ریلیف دے سکے۔ مہنگائی کم کرنے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے۔ ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے اور دیگر امور کیلئے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ اس کے لئے کافی وقت درکار ہو گا۔اہم بات یہ ہے کہ قومی سیاست میں سکوت کی کیفیت ہو گی تب ہی نئی حکومت کو ٹک کر کام کرنے کا موقع مل سکے گا۔ معلوم نہیں کہ آنے والوں کو پوری توجہ سے کام کرنے دیا جائے گا یا ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
فی الحال انتخابات کے اعلان کے باوجود سیاسی منظرنامے میں بے یقینی کی کیفیت نمایاں ہے۔ انتخابات ابھی ہوئے نہیں ہیں ، لیکن نہایت وثوق کے ساتھ ان کے نتائج کی پیشن گوئیاں ہو رہی ہیں۔ الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ لازم ہے کہ نگران حکومتیں انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات اٹھائیں۔ جو جائز شکایات ہیں ان کا ازالہ ہونا چاہیے۔لیکن جھوٹ کا جو بازار گرم ہے، اس کا کیا حل ہے؟۔مثال کے طور پر پچھلے دنوں تحریک انصاف کے امیدوار بلال ورک کی ایک پرانی تصویر دکھا کر مسلسل یہ ڈھول پیٹا جاتا رہا کہ ان کے کاغذات نامزدگی چھین کر ان پر تشدد کیا گیا ہے۔ کچھ معروف ٹی وی اینکر بھی یہ تصویر دکھا کر واویلا کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اس امیدوار کی بیوی نے اس بات کی تردید کی اور بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ اور اس طرح کی کئی افواہیں انتخابات کی ساکھ کو مشکوک بنارہی ہیں۔
کھل کر بات کی جائے تو یہ دراصل نو مئی کا قضیہ ہے۔ ایک جماعت کو شکایت ہے کہ اسے انتخابی کھیل کھیلنے کے لئے ہموار میدان میسر نہیں ہے۔ ان کے قائدین کو مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا ہے۔ اس جماعت کے حامیوں کا خیال ہے کہ نو مئی کو جو دنگا فساد ہوا۔ قومی عمارتوں کو جلایا گیا۔یا شہداء کی نشانیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی، اس معاملے پر مٹی ڈال دی جائے۔ ان واقعات کی باز پرس ہوتی ہے تو اس کولیول پلیئنگ فیلڈ کی عدم دستیابی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس نقطہ نظر یہ ہے کہ نو مئی کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا تھا، اس کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا ایک انٹرویو میری نگاہ سے گزرا۔ نہایت سادہ الفاظ اور دو ٹوک انداز میں انہوں نے کہا کہ’’میرا اصولی موقف ہے کہ نو مئی کی سازش میں ملوث افراد کو پبلک آفس ہولڈ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ‘‘ کیا یہ اچھا نہ ہو کہ اگر ، مگر، چونکہ، چنانچہ کے بغیر فیصلہ کر لیا جائے کہ نو مئی کا حساب ہونا ہے یا اس کو بھلانا ہے۔ امریکہ کی مثال لے لیجئے۔
کیپیٹل ہل حملہ کیس میں امریکی ریاست کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آئندہ صدارتی انتخابات کے لئے نااہل قرار دیا تھا۔ اب امریکی ریاست مین نے بھی دو دن پہلے ٹرمپ کو نااہل کر دیاہے۔ریاستیں ایسے دوٹوک فیصلے کرتی ہیں۔ ایک ہم ہیں جواہم فیصلے کرتے وقت تذبذب میں گھرے رہتے ہیں۔قوم کو بھی بے یقینی کا شکاررکھتے ہیں اور یکسو نہیں ہونے دیتے۔ اللہ کرئے کہ نئے سال کا سورج پاکستان کے لئے ایک روشن امید بن کر طلوع ہو اور قو م کو ہر طرح کی بے یقینی اور عدم استحکا م سے نجات ملے۔ آمین۔
تبصرے بند ہیں.