انتخابات کا موسم قریب آ تے ہی سیاسی منظر نامے میں گہما گہمی دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے ضمن میں جو بے یقینی کی کیفیت موجود تھی، وہ دھندلا گئی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کو جاتا ہے،جس نے انتخابات ملتوی کروانے کی تمام کاوشوں کے آگے بند باندھ رکھا ہے۔ دو دن پہلے سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں سے متعلق ایک کیس میں بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک حکم نامہ جاری کیا ہے۔ اس تحریری حکم نامے کا لب لباب یہ ہے کہ انتخابات کا انعقاد حلقہ بندیوں کے تنازعات سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے بھی ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران سے متعلق کیس میں جو فیصلہ دیا تھا، اسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ ہر جمہوریت پسند یہ چاہتا ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوںاور ان کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں انتخابی سرگرمیوں میں مزید تیزی آئے گی۔ٹکٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کے اعلان کے بعد جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہو گا۔ سیاسی وعدوں اور بیانات کی گونج سنائی دے گی۔ اس تناظر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن سے متعلق ضابطہ اخلاق جاری کر دیا ہے۔ قومی اخبارات میں اس ضابطہ اخلاق کی کوریج میری نگاہ سے گزری ہے ۔ خصوصی طور پر یہ سرخیاں کہ انتخابی مہم میں عدلیہ اور افواج پاکستان کی تضحیک سے گریز کیا جائے۔ یہ سرخیاں پڑھ کر ذہن میں سوال ابھرا کہ عدلیہ اور افواج کے علاوہ دیگر اداروں اور افراد کی بھی تضحیک کیوں ہو ؟ ضابطہ اخلاق میں یہ تنبیہ کیوں نہیں کی جاتی کہ کسی بھی ادارے، تنظیم یا شخصیت کے بارے میں تضحیک آمیز باتوں سے اجتناب کیا جائے۔ویسے بھی پچھلے سالوں میں سیاست میں جس طرح کے بیانئے اور زبان و بیان کو رواج ملا ہے، اس نے عدم برداشت اور عدم تحمل کو فروغ دیا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل اپنے آپے سے باہر نکلتی محسوس ہوتی ہے۔
ذاتی طور پر مجھے سیاست سے نہایت دلچسپی ہے۔ تاہم گزشتہ برسوں میں سیاست کے میدان میں جو کھیل کھیلا گیا اور ملک کی بربادی کا اہتمام کیا گیا، اس نے سیاست سے میری دلچسپی کو نسبتا کم کر دیا ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی عدم برداشت اسقدر بڑھ گیا ہے کہ آدمی کو سیاسی گفتگو سے بھی اجتناب کرنا پڑتا ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے اوربظاہر شائستہ اطوار لوگ بھی مخالف سیاسی نکتہ نظر سننے اوربرادشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بسا اوقات دلائل کے بجائے ڈھٹائی کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ سیاست کو کفر اور ایمان کی جنگ بنا دینے سے نوجوان نسل پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ نتیجہ سوشل میڈیا میں ہونے والی گالی گلوچ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی کی بھی عزت آبرو محفوظ نہیں ہے۔ کوئی بھی کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ ڈالے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ گالی گلوچ، الزام تراشی، اور ڈھٹائی سے جھوٹ بولنے کو کس جماعت اور کس سیاسی رہنما نے رواج دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دیگر جماعتوں کے تمام پیروکار نہایت مہذب ہیں۔ کچھ نہ کچھ بد زبانی اور بد کلامی ہر جماعت کے پیروکار کرتے ہیں۔ لیکن جب کسی جماعت کا سربراہ بذات خود بد کلامی کرئے اور بد زبانی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرئے، تو اندازہ کیجئے کہ اس جماعت کے پیروکاروں کا کیا حال ہو گا۔
شعبہ تدریس سے منسلک ہونے کی وجہ سے میرا نوجوانوں سے رابطہ رہتا ہے۔ مسلسل کئی برس سے میں ان میں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہی ہوں۔ اس مشاہدے کے تاثرات حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ مختلف محفلوں میں ہونے والی سیاسی گفتگو سن کر بھی اکثر مایوسی ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں مجھے چار سیاسی مذاکروں میں جانے کا موقع ملا۔ مذاکروں کا مقصد نوجوانوں کے سیاسی شعور کو جانچنا تھا۔ ان مذاکروں میں مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم شہری اور دیہاتی نوجوان لڑکے ، لڑکیوں نے حصہ لیا۔ تمام مذاکروں میں خاموشی کے ساتھ میں مشاہدات درج کرتی رہی۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ایک سیاسی جماعت کے پیروکار نوجوانوں کی زبان اور لب و لہجہ کس قدر بگڑ چکا ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ جماعت کے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چور، ڈاکو، لٹیرے والے بیانئے پر ڈٹ کر کھڑے تھے۔ تشویش کی بات یہ تھی کہ ان میں سے بیشتر کے پاس کسی قسم کے دلائل نہیں تھے۔ وہ کسی ربورٹ کی طرح وہی جملے دھراتے رہے، جو انہوں نے اپنے سیاسی لیڈر کے منہ سے بیسیوں یا شاید سینکڑوں بار سن رکھے تھے۔ جب میزبان نے ان سے کچھ سوالات کئے۔ تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی۔ پوچھا گیا کہ کیا آپ نے اپنی سیاسی رائے کے حوالے سے کچھ تحقیق کی ہے؟۔ جواب نفی میں تھا۔ پوچھا گیا کہ اپنی پسندیدہ سیاسی شخصیات کی وہ خوبیاں بتائیں، جس کی وجہ سے آپ انہیں ملک وقوم کے لئے مفید سمجھتے ہیں۔ جواب ندارد۔
دیگر سیاسی جماعتوں کے بھی اکثر پیروکار تحقیق سے دور تھے۔ ان کے پاس بھی دلائل کی کمی محسوس ہوئی۔ لیکن یہ ضرور ہے ان کے انداز میں ڈھٹائی نہیں تھی۔ ان کے الفاظ کے چناو اور زبان میں بدتہذیبی کا عنصر بہت کم تھا۔
سچ یہ ہے کہ اس ساری گفتگو کے دوران مجھے خیال آتا رہا کہ یہ مجھ جیسے اساتذہ کی بھی نا اہلی ہے کہ ہم اپنے شاگردوں کو شائستگی سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں سکھا سکے۔ انہیں تحقیق کے بعد اپنی رائے بنانے کا درس نہیں دے سکے۔ انہیں یہ نہیں بتا سکے کہ وہ بغیر دلیل کے گفتگو کرنے سے پہلے سو بار سو چیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ مخالف جماعت کے حامیوں کی گالی گلوچ سننے کے بعد اکثر مہذب نوجوان بھی صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ یعنی خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ لیتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ بیان کرتی ہوں۔ کچھ طالب علم کسی سیاسی معاملے پر بات کر رہے تھے۔ یہ مختلف سیاسی جماعتوں کو پسند کرنے والے طالب علموں کا ایک گروہ تھا۔ ایک سیاسی جماعت کے پیروکار نے پیپلز پارٹی کے خلاف بات شروع کی اور یہ جملہ کہہ ڈالا کہ ”زرداری صاحب نے حرام کا مال اکھٹا کیا ہوا ہے“۔ جوابا اس کا ساتھی بھڑک اٹھا۔ اس نے کسی لحاظ کے بغیر ترنت جواب دیا کہ ”حرام کا مال اکھٹا کیا ہوا ہے، حرام کی اولاد تو اکھٹی نہیں کی ہوئی“۔ مجھے بہ امر مجبوری یہ الفاظ لکھنا پڑتے ہیں ، تاکہ بتا سکوں کہ یہ ہے وہ طرز گفتگو جو ہمارے پڑھے لکھے نوجوان سیاسی مکالمے میں استعمال کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ جملے اور لب و لہجہ کس سیاسی لیڈرکی دین ہے۔ یہ صرف نوجوانوں کا حال نہیں ہے۔میں نے جامعات کے پروفیسروں کو بھی اس انداز میں گفتگو کرتے سنا ہے۔ یہ وہ ظلم ہے جو پچھلے چند سال سے اس قوم خاص طور پر نوجوان نسل کے ساتھ ہوا ہے۔ معلوم نہیں کہ ہمیںکب تک اس سیاسی تربیت کے اثرات بد بھگتنا ہوں گے۔
اب سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم نجانے کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اللہ کرئے کہ ہر جماعت مہذب انداز میں اپنی انتخابی کمپین چلائے۔ اپنا منشور اور کارکردگی عوام کے سامنے رکھے۔ گالی گلوچ، نفرت انگیزی اور بدکلامی کا سلسلہ ہر سطح پر بند ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
تبصرے بند ہیں.