ریٹنگ کی دوڑ، ڈوبتا ٹوٹتا معاشرہ

111

میڈیا میں (ہر طرح کے میڈیا میں) ریٹنگ کی ہوس ناک دوڑ میں معاشرے کے وہ مسائل جن کا تعلق عوام کی اکثریتی آبادی سے ہے نہ صرف اوجھل ہو چکے ہیں بلکہ ان کا ذکر خیر بھی کم کم ہی نظر آتا ہے سیاست دانوں کے بخیے ادھیڑنا ٹھٹھا اڑانا انہیں دنیا کی بدترین مخلوق ثابت کرنا اس وقت چینلز کے ٹاک شو اور اخبارات کے کالم نویسوں کا ”مرغوب“ مشغلہ بن چکا ہے اسی طرح ہڈ حرامی میں اضافہ کرتے ہوئے ”انعام گھر“ جیسے شوز میں ایک انعام کی خاطر شرف انسانی کی تذلیل کے مظاہرے دکھانا پروگرام کرنے والے اینکر کا کمال بتایا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی ٹاک شو میں میزبان کی جانب سے پوچھے گئے کسی ”نازیبا“ سوال پر مہمان پروگرام سے اٹھ کر چلا جائے، بجائے اس کے اس پر شرمندگی یا ندامت کا اظہار کیا جائے بڑی ڈھٹائی سے اسے صحافت کی اعلیٰ قدر بیان کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں صحافت کا مفہوم اور معنی بدل چکے ہیں کسی سیاستدان کے بیان کو من وعن کالم میں لکھنے والے بڑئے کالم نگار کہلاتے ہیں۔ جبکہ عوام کی زندگیاں کن مسائل نے جکڑ رکھی ہیں ان کا علاج اور نجات کیا ہے پر تحقیق اور ریسرچ پر مبنی کالم کو ہمارے ہاں وہ پذیرائی نصیب نہیں ہوتی جتنی کسی ٹھٹھا اڑانے والے کو ملتی ہے کیا ہم بنیادی قدریں کھو دینے والا معاشرہ بن چکے ہیں۔ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں سے گھن آتی ہے ان پر لکھنا فخر محسوس کیا جاتا ہے شائد یہی چلن زمانے کا ہو مگر کبھی کبھی اس چلن سے بغاوت کرتے ہوئے کچھ حقیقی تحریر بھی اپنے پڑھنے والوں کی نذر کرنی چاہیے۔

معاشرے ہوں یا ملک ان میں بسنے والے افراد کے مجموعی رویوں سے وہاں کی طرز بودوباش اور اخلاقیات کا پتا چلتا ہے، ایک طرف دیکھا جائے تو دنیا نے انسانی وسائل اور اس کی آسانی کے حوالے سے بہت ترقی کر لی ہے، جسے خوش آئند قرار دیا جانا چاہے جبکہ دوسری جانب خود حضرت انسان ماضی کی وحشت اور درندگی سے باہر نکل نہیں پایا، نوئے کی دہائی میں یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ انسان کے امن و سکون سے رہنے کے دن آ رہے ہیں ایک دوسرے ملک میں جانے کے لئے حدیں اور سرحدیں اب کوئی معنی نہیں رکھیں گی مگر برا ہو ان کا جنہوں نے، امن اور ترقی کی جانب جاتی دنیا کو صرف ایک دہشت گردی کی ایک واردت نے ایسا بیک گیئر لگایا کہ انسانی آزادی کا جو سفر انسان نے صدیوں میں طے کیا تھا پل بھر میں زمین بوس کر کے رکھ دیا۔ نائن الیون کے واقعے نے انسان کے مہذب پن کا چولا اتار کے رکھ دیا اور پھر دہشت گردی کی آگ میں سب کچھ جل کر بھسم ہو گیا اور اب تو یہ حالات ہو چکے ہیں کہ اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہوا آج کا انسان شکوک و شہبات کی ایسی منڈی میں داخل ہو چکا ہے جہاں ہر دوسرا انسان اسے مشکوک نظر آتا ہے۔

آپ المیہ دیکھیے ریاستوں اور ملکوں کی حکومتی مشینری نے بھی شہریوں کو ڈرانے اور ایک دوسرے کو مشکوک بنانے میں اپنا کردار حتی الوسع ادا کیا ہے جب حکومت کی جانب سے بڑئے بڑئے اشتہار اخبارات اور چینلز پر چلائیں جائیں جن کا متن یہ ہو کہ ”خبر دار دہشت گرد آپ کا دشمن ہے“ کوئی بھی مشکوک چیز دیکھیں تو قریبی پولیس اسٹیشن اطلاع دیں اور مشکوک حلیے کے افراد پر نظر رکھیں جبکہ پولیس خود شہریوں کو یہ کہتی پھرے کہ اپنی حفاظت آپ کریں تو اس طرح کے عوامل بھی معاشرے کے تار پود بکھیرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم لوگ محلے کے کسی بھی گھر میں بلا روک ٹوک چلے جاتے تھے پیار و محبت کی ایسی معطر فضا ء ہوتی تھی کہ معاشرہ خوب صورت لگتا تھا،سفر میں پیاس لگتی کسی بھی کوٹھی کا گیٹ کھلا دیکھتے اس میں داخل ہو کر نلکے سے پانی پی لیتے کبھی کسی نے مشکوک نہیں جانا تھا۔ آج تو آپ کسی کے گھر کے باہر کسی بیماری یا تھکاوٹ کے سبب کچھ دیر سستانے کے لیے بیٹھ جائیں فوراً پولیس کو اطلاع کر دی جاتی ہے، یا آپ سے کہا جاتا ہے کہ یہاں سے اٹھ جائیں۔معاشرتی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ لوگ بنا سوچ سمجھے اور جانے دوسروں کے بارے رائے قائم کر لیتے ہیں اور اکثر بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔

بد ظنی یا بدگمانی انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفقود کر دیتی ہے۔اس بدگمانی اور بد ظنی کے حوالے سے ذہن کے گوشوں میں چھپا ایک واقع شیئر کر رہا ہوں کہ ایک بحری جہاز سمندر میں رواں دواں تھا اس کے عرشے پر ایک خستہ حال حلیے میں ایک شخص چادر اوڑھے اس طرح بیٹھا تھا کہ جہاز کے دیگر مسافروں کو گزرنے میں دشواری ہو رہی تھی جبکہ کچھ افراد اسے مشکوک سمجھتے ہوئے عجیب سی نظروں سے گھورتے ہوئے گزر رہے تھے جبکہ آپس میں ان کی کانا پھوسی بھی جاری تھی کوئی کہتا کہ ہونا ہو یہ دہشت گرد ہو، ڈاکو ہو کوئی کچھ۔ وہ شخص ان سب باتوں سے بے نیاز ٹھوکروں میں بیٹھا رہا جب لوگوں کی برداشت جواب دے گئی اور بد ظنی نے ان کے دماغ کو مفلوج کر دیا اور خوف بڑھنے لگا تو جہاز کے مسافر اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے اس ”مشکوک شخص“ کو یہاں سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دو ایسا نہ ہو اس کی وجہ سے ہم پر کوئی آفت آجائے، شور بڑھتا گیا اور پھر ”ہجوم“ اس شخص کو اٹھا کر سمندر میں پھینکے کی نیت سے آگے بڑھا کچھ مشٹنڈوں نے اس پر ہاتھ بھی ڈال دیا کہ اچانک ایک آواز آئی ٹھہرو۔۔! سب رک گئے اور مڑ کر آواز کی طرف استفساری نظروں سے دیکھا۔ لیکن اسے سمندر میں پھینک دو کا شور تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، آواز دینے والے نے کہا کیا تم لوگ جانتے ہو یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں ہم تو اسے کوئی دہشت گرد یا مجرم سمجھ رہے ہیں اس کا حلیہ بھی تو ایسا ہے، اس شخص نے کہا جسے تم بنا تحقیق مجرم سمجھ رہے ہو یہ اس جہاز کا کپتان ہے۔

لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے،وہ پھر گویا ہوا اور یہ یہاں اس لیے بیٹھا ہے کہ جس جگہ یہ بیٹھا ہے یہاں سوراخ ہو چکا ہے جس میں سے سمندر کا پانی جہاز میں داخل ہو سکتا ہے اور یہ جہاز کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے اس سوراخ پر بیٹھا ہے جہاں سے جہاز کے اندر پانی آسکتا ہے اور تم اسی کو اٹھا کر سمندر میں پھینک رہے ہو۔۔! سب لوگ نہ صرف بہت شرمندہ ہوئے بلکہ اس سے معافی بھی مانگی۔

ہمارے عجلت میں کئے ہوئے فیصلے ہجومی انصاف اکثر و بیشتر بد گمانی اور بد ظنی پر مبنی ہوتے ہیں جو صحیح اسباب جاننے کے بعد ہمارے لئے ندامت اور پشیمانی کا باعث بنتے ہیں۔ گویا ہم کئی بار دوسروں پر ظلم کر کے اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جنہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانی اور بدظنی میں اضافہ کیا ہے لیکن ان حالات کو درست بھی تو کسی نے کرنا ہے؟ حکومت اور معاشرے کو مل کر ایسے اقدامات اٹھانے ہونگے کے ہم تکریم آدمیت کی طرف واپس لوٹ سکیں اور انساں کا احترام ہماری بد ظنی کی نظر نہ ہو جائے۔

تبصرے بند ہیں.