جو کریں سوچ کر کریں

57

گذشتہ چند دنوں سے میڈیا میں چنگ چی اور لوڈر رکشوں کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی ہیں لیکن ان خبروں میں ابہام ہے۔ شائع ہونے والی خبر جو کہ پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ کا بیان ہے کہ چنگ چی رکشوں کے مالکان کو 30 دن کی مہلت ہے اس کے بعد سڑکوں پر چنگ چی رکشے نہیں چلیں گے۔ اگر یہ خبر ایسے ہی ہے تو یہ صرف چنگ چی رکشا مالکان پر ہی ظلم نہیں ہے عوام الناس کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی بلکہ دیگر کئی شعبہ زندگی سے وابستہ افراد کے ساتھ بھی ظلم کے مترادف ہو گا کہ جن پر ایک با عزت روزگار کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ عوام الناس کے ساتھ زیادتی اس وجہ سے کہ لاہور کوئی کراچی جیسا سندھ کا تباہ حال شہر نہیں ہے کہ جہاں پر اس وقت چھ سے سات روٹس پر ای بسیں چلتی ہیں اور مکمل نہیں تو کچھ حد تک یقینا کراچی کی عوام کی ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کر رہی ہیں لیکن خوش حال پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور میں خدا بھلا کرے شہباز شریف کا کہ جنھوں نے نوے کی دہائی میں ایل ٹی سی اور ڈائیوو بس مختلف روٹس پر چلائیں اور اب دو روٹس پر میٹرو بس اور اورنج ٹرین چلا کر عوام الناس کے لئے ٹرانسپورٹ کی اعلیٰ درجہ کی سہولت میسر کی۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں فروری 2019 میں ڈائیوو اور ایل ٹی سی کی بسیں تو بند ہو چکی اور فقط دو روٹس پر اورنج ٹرین اور میٹرو بس عوام کی ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں اس صورت حال میں جگہ جگہ بلکہ ہر جگہ چنگ چی رکشا عوام کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے چنگ چی رکشے کسی اور سواری کی عدم موجودگی میں عوام کے لئے کس قدر اہم ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف لاہور میں 80 ہزار سے زیادہ رکشے چلتے ہیں جبکہ پورے پنجاب میں ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر چنگ چی رکشے پر مکمل پابندی لگا کر اسے بند کر دیا گیا تو تو صرف لاہور سے 80 ہزار سے زائد خاندانوں پر روز گار کے دروازے بند ہو جائیں گے اور پورے پنجاب سے لاکھوں افراد اپنا چلتا ہوا روزگار کھو بیٹھیں گے اور یہ تو وہ لوگ ہیں جو براہ راست اس روزگار سے وابستہ ہیں لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ افراد جو اس صنعت سے وابستہ ہیں جن میں مینوفیکچرنگ سے لے کر میکینک تک سب شامل ہیں تو اس شدید مہنگائی اور بیروزگاری کے دور میں ایک ہی ہلے میں اگر کئی ملین افراد کو ان کے روزگار سے فارغ کر دیا گیا تو غربت اور بے روزگاری کا جو طوفان آئے گا اس کے نتائج معاشرے پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب کریں گے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں ہے اور لاکھوں افراد جن میں نوجوانوں کی اکثریت ہو گی جب وہ بے روزگاری کا شکار ہوں گے تو جرائم کی شرح میں کس قدر تیزی سے اضافہ ہو گا اسے سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔

جیسا کہ شروع میں عرض کیا کہ خبر میں ابہام ہے اور کچھ لوگوں کے نزدیک ایسا نہیں ہے کہ ایک ساتھ شہروں سے چنگ چی اور لوڈر رکشے ہٹانے جیسا عقل و شعور سے ماورا کوئی اقدام کیا جائے بلکہ وہ رکشے جو PSQCA کے معیار کے مطابق نہیں ہیں انھیں بند کیا جائے گا اور باقی رکشوں کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے گی پہلی اور دوسری صورت جو بھی ہو اس میں حکومت کو کچھ باتوں کا ہر صورت خیال رکھنا چاہیے۔ اول کہ چنگ چی آج سے نہیں بلکہ انھیں بنتے ہوئے کئی عشرے ہو چکے ہیں تو جب یہ PSQCA کے معیار کے بغیر بن رہے تھے اور بن کر سڑکوں پر چل رہے تھے تو اس تمام عرصہ میں کیا حکومت سو رہی تھی۔ جب لوئر مڈل کلاس غریب آدمی اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر اسے خرید رہا تھا تو اس وقت حکومت کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ PSQCA کے معیار سے نیچے بنائے گئے یہ رکشے عوام کے لئے خطرناک ہیں جب لاکھوں لوگ اپنا قیمتی سرمایہ اس میں لگا چکے ہیں تو خواب غفلت میں سوئی ہوئی حکومت کو اب یاد آیا ہے کہ یہ سب تو غیر قانونی ہے اور اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ جو رکشے چل رہے ہیں ان میں سے بیشتر قسطوں پر خریدے ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں یہ رکشے فیکٹریوں اور شو روموں میں کھڑے ہیں جن میں اربوں کی سرمایہ کاری ہوئی ہے اور اس میں صرف آٹو سیکٹر کے ہی اربوں نہیں ڈوبیں گے بلکہ قسطوں کی سہولت میں معاون انویسٹر طبقہ بھی روزگار کے ساتھ ساتھ اپنے سرمایہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا تو جو حفاظتی معیار کے مطابق نہیں ہیں ان پر ضرور پابندی لگائیں ان کی رجسٹریشن بھی کریں اور ڈرائیوروں کے لئے لائسنس ہی نہیں بلکہ ہیلمٹ بھی لازمی قرار دیں لیکن اس سے پہلے عوام کے لئے متبادل ذرائع آمد و رفت کا اور جو لوگ بیروز گار ہوں گے ان کے روزگار کا اور آٹو انڈسٹری کو جو نقصان ہو گا اس کے ازالے کے لئے بھی اقدامات کر لیں تاکہ غریب آدمی کے چولہے ٹھنڈے نہ ہو جائیں اور اس کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل امر نہ بن جائے۔

آخر میں اتنا ضرور کہیں گے کہ فضائی آلودگی میں چنگ چی رکشے کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ گذشتہ بیس سال سے چنگ چی رکشے میں 4 اسٹروک انجن لگایا جاتا ہے جس سے فضائی آلودگی کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا اگر مسئلہ فضائی آلودگی کا ہی ہے تو غریب کی سواری کی بجائے پہلے ان صنعتوں کے امیر سیٹھوں پر ہاتھ ڈالیں جو فضائی آلودگی کا اصل محرک ہیں اور ابھی چند دن پہلے تو پنجاب حکومت فضائی آلودگی کے سبب بننے والی سموگ کی وجہ ہندوستان کے کسانوں کی جلائے جانے والی فصلوں کے دھویں کو قرار دے رہی تھی تو اب ایک دم غریب کے چنگ چی رکشے پر پرنالہ کیوں گرنا شروع ہو گیا ہے گذارش فقط اتنی ہے کہ جو آپ بہتر سمجھتے ہیں کریں لیکن خدارا غریب کے روزگار اور بستر مرگ پر پڑی معیشت میں آٹو سیکٹر کو نقصان پہنچانے ایسے اقدامات سے گریز کریں کہ اسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے۔

تبصرے بند ہیں.