کئی جھوٹے اکٹھے ہوں تو سچا ٹوٹ جاتا ہے

59

مجھے بڑے افسوس کہ ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہم بطور قوم بہت سے معاملات میں انتہائی پستی کا شکار ہوگئے ہیں اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ اپنی غلطی کو غلطی بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ سینہ چوڑا کر کے اس غلطی کو سچ کا روپ دینے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک بیماری جو سرطان کی طرح ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے وہ ہے جھوٹ، جھوٹی خبروں، جھوٹے تجزیوں، جھوٹی گواہیوں اور جھوٹی سوشل میڈیائی رپورٹس کی روشنی میں ہم بغیر تصدیق کئے دشمن قوتوں کے حواری بن جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایسا طوفان بد تمیزی کھڑا ہواتا ہے کہ الامان الحفیظ!!! پھر نہ کسی کی ماں کا خیال کیا جاتا ہے اور نہ بیوی اور بیٹی کا، جس کے ہاتھوں جو لگتا ہے وہ اس گندگی میں اپنا بھر پور حصہ ڈال رہا ہو تا ہے۔

نہ صرف ایک فرد بلکہ گندگی کا یہ سلسلہ ان کے سر براہان سے ہوتا اداروں تک جا پہنچتا ہے اور یوں اداروں کی، ان کے سر براہان کی اور دیگر لوگوں کی جو سچ کے داعی ہیں اور اس گروہ کو جن کاسچ ہضم نہیں ہوتا تھا، ایسی کردار کشی ہوتی ہے کہ جو گذشتہ کئی سال میں ہمیں دیکھنے کو ملی ہے۔ دشمن، کو اتنی جرات نہیں ہوئی جتنی اپنے کر گئے اور پھر جس کے نتیجے میں دشمنوں نے بھی خوب کام دکھایا۔ بالخصوص ایک خاص گروہ اور مائنڈ سیٹ رکھنے والے لوگ اپنے نظریات اور خیالات سے اختلاف رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک رواء رکھتے ہیں جیسے کہ وہ اس دھرتی پر خود پاک اور صاف ہیں اور باقی سب گناہ گار، جھوٹے اور خائن ہیں۔ اپنی اسی روش کی آڑ میں ان لوگوں نے اداروں کے وقار کو کس حد تک مجروح کیا شاید انہیں معلوم نہیں، وہ لوگ اپنے لیڈروں کے پیچھے بغیر کسی سوچ و بچار کے آنکھیں بند کر کے اپنے مخالف کے خلاف ایسی جھوٹی باتیں کرتے اور پھر اسے پھیلانے میں مصروف ہو جاتے۔ لیکن قدرت کا بھی اصول ہے کہ جو سچا ہوتا ہے، اسے استقامت عطا ہوتی ہے اور ہم نے دیکھا جن لوگوں، اداروں اور ان کے سر براہان کے خلاف جھوٹ گھڑا گیا وہ قابل احترام ٹھہرے بلکہ ان کی عزت و قار میں مزید اضافہ ہوا۔ کیو نکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ حق قائم رہنے کے لئے آیا ہے اور باطل مٹنے کے لئے۔ ہر سچ حق ہے اور ہر جھوٹ باطل، اور باطل کو جس طرح خواری سامنا ہے، پوری دنیا اسے دیکھ رہی ہے۔

کاش یہ گروہ بڑے بڑے دعووں کے ساتھ کریم رب کے قرآن کو بھی پڑھ لیتے جس میں وضاحت کے ساتھ سب کچھ بیان کر دیا گیا ہے۔ احکام باری تعالیٰ ہے کہ:ترجمہ: ”اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہو گی۔“ (سورۃ الاسراء: ۶۳) آیتِ مذکورہ کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”یعنی بے تحقیق بات زبان سے مت نکال، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر، آدمی کو چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کراور بقدرِ کفایت تحقیق کر کے کوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے، سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے یوں ہی اَٹکل پچو کوئی قطعی حکم نہ لگائے یا عمل درآمد شروع نہ کر دے۔ اس میں جھوٹی شہادت دینا، غلط تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیزیں سن کرکسی کے درپے آزار ہونا، یا بغض و عداوت قائم کرلینا، باپ دادا کی تقلید یا رسم و رواج کی پابندی میں خلافِ شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا، اَن دیکھی، یا اَن سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا، غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعویٰ کرنا کہ میں جانتا ہوں، یہ سب صورتیں اس آیت کے تحت میں داخل ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن تمام قویٰ کی نسبت سوال ہو گا کہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیا تھا؟ بے موقع تو خرچ نہیں کیا؟“ (تفسیر عثمانی) یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اُسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔امام احمدؒ نے بلال بن حارث مزنیؓ سے روایت کیا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان بعض اوقات کوئی کلمہ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضاء دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ ووبال کہاں تک پہنچے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔“ (ابن کثیر، تلخیص، از: معارف القرآن، ج: ۸، ص: ۳۴۱) قر آن و حدیث کی روشنی میں بھی جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں، جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:ترجمہ: ”لعنت کریں اللہ کی اُن پر جو کہ جھوٹے ہیں۔“ (سورہ آلِ عمران: ۱۶)

قارئین محترم! اب بھی وقت ہے کہ ہم ان قر آنی آیات کی روشنی میں اپنا اپنا محاسبہ کریں اور جن جھوٹی باتوں کو پھیلانے کی وجہ سے لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوئی، ملکی اداروں کے وقار کو ٹھیس پہنچی، اس کا اندازہ کر تے ہوئے اپنا قبلہ درست کریں۔ معاشرے کو جھوٹوں کی آماجگاہ بنا نے کی بجائے سچے لوگ پیدا کریں کیو نکہ بقول شاعر

یہاں مضبوط سے مضبوط لوہا ٹوٹ جا تا ہے
کئی جھوٹے اکٹھے ہوں تو سچا ٹوٹ جاتا ہے

تبصرے بند ہیں.